خواجہ آصف کی ضمانت سے نیب کی ساکھ صفر ہو گئی

خواجہ سعد رفیق کیس کے بعد ایک اور لیگی رہنما خواجہ محمد آصف کی ضمانت کیس کے تفصیلی فیصلے نے نیب کی ساکھ کا بحران مزید گہرا کرتے ہوئے اسے صفر کر دیا ہے۔
اپنے فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ نیب خواجہ آصف کو چھ مہینے اپنی تحویل میں رکھنے کے بعد بھی انخے خلاف کیس قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف کی درخواست ضمانت منظوری کے بعد اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ اپوزیشن رہنما نے قومی خزانے کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور کسی ملزم کو غیر معینہ مدت کیلیے جیل میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بینچ نے 23 جون 2021 کو مختصر حکم کے ذریعے خواجہ آصف کی ضمانت منظور کی تھی جس کے دو ہفتوں بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے جس نے نیب اور حکومتی گٹھ جوڑ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک اور سیاستدان کو سرخرو کیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی گزشتہ سال اپنے ایک فیصلے میں نیب کی ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاریوں کو نیب آرڈنینس سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ جولائی 2020 میں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق ضمانت کیس میں اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ملزمان کے خلاف انکوائری، ان کی گرفتاری اور انہیں لمبے عرصے تک جیل میں رکھنے کا عمل نیب آرڈنینس سے مطابق نہیں رکھتا اور آئین کے مطابق ریاست کو اپنے شہریوں کی آزادی کے حق کو یقینی بنانا چاہیے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا تھا کہ یہ کیس انسانی حقوق کی پامالی، ذاتی آزادی سے غیر قانونی محرومی، اور آئین میں یقینی بنائی گئی انسانی عظمت سے مکمل انحراف کی واضح مثال ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ دھونس اور انسانی عظمت کی کھلی پامالی کی وجہ سے نیب ملک کی سرحدوں کے باہر بھی بدنام ہو رہا ہے۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سید شہباز علی رضوی پر مشتمل دو ججز کے بینچ نے 23 جون کو خواجہ آصف کی ضمانت کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس مواد موجود ہے اور نہ ہی کسی پہلو سے یہ حتمی نتیجہ نکلا ہے کہ انہیں کروڑوں 70 روپے کی ترسیلات کسی جرم کے نتیجے میں موصول ہوئی تھیں۔ بینچ نے مشاہدہ کیا کہ خصوصی استغاثہ نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے واضح طور پر اعتراف کیا کہ یہ استغاثہ کا معاملہ نہیں ہے کہ درخواست گزار نے کوئی کک بیک یا کوئی ناجائز رقم وصول کرنے یا اختیارات کے غلط استعمال یا بدعنوانی کے بعد اثاثے حاصل کیے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسپیشل پراسیکیوٹر کے بیان کے پیش نظر یہ استغاثہ کا کیس نہیں ہے کہ درخواست گزار نے اپنے عہدے کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زائد اثاثے حاصل کیے۔ بینچ نے مشاہدہ کیا کہ انکم ٹیکس گوشواروں میں غیر ملکی ترسیلات زر ظاہر کرنا سچائی کو ظاہر کرسکتا ہے۔ 18 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کی املاک، ان کی حاصل کردہ آمدنی اور غیر ملکی ترسیلات کے دعوے سے متعلق ایف بی آر کے ریکارڈ بھی پورے ہیں، یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ درخواست گزار نے سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ ججز نے عدالت میں دائر دو رپورٹس میں نیب کے موقف کی تبدیلی پر حیرت کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ28 اپریل 2021 کو اپنی پہلی رپورٹ میں نیب نے دعوٰی کیا تھا کہ خواجہ آصف اور ان کی اہلیہ نے 2 کروڑ 97 لاکھ اور ایک کروڑ 6 لاکھ 92 ہزار روپے کی تنخواہ حاصل کی ہے جبکہ اس کے بعد کی رپورٹ میں 18 جون 2021 کو خواجہ آصف اور ان کی اہلیہ کی طرف سے حاصل کردہ تنخواہ کو اجتماعی طور پر 2 کروڑ 87 لاکھ روپے دکھایا گیا تھا۔ بینچ نے نشاندہی کی کہ درخواست گزار اور اس کی اہلیہ کی تنخواہ 4 کروڑ 5 لاکھ روپے سے کم ہو کر 2 کروڑ 87 لاکھ 72 ہزار روپے تک کیسے ہوئی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر اس کی وجہ بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ اسی طرح کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی بغیر کسی وجہ کے 8 کروڑ 21 لاکھ 86 ہزار روپے سے کم ہو کر 5 کروڑ 15 لاکھ 69 ہزار روپے ہوگئی۔ بینچ نے مزید مشاہدہ کیا کہ 2014 کی آڈٹ یونٹ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ آڈٹ کے دوران کوئی تضاد نہیں پایا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم بین الاقوامی مکینیکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی آئی ایم ای سی او کا نمائندہ پاکستان آنا چاہتا تھا تاہم تفتیشی افسر نے تحقیقات میں دبئی کمپنی کے نمائندے کو شامل نہیں کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ خواجہ آصف نے انکم ٹیکس گوشواروں میں اپنی بیرون ملک آمدنی ظاہر کی تاہم نیب نے 2004 سے 2008 کے دوران سفارتخانے سے ان کی بیرون ملک آمدنی کی تصدیق نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار کے بارے میں مزید تفتیش کی ضرورت ہوتی ہے، استغاثہ کی جانب سے اب بھی مقدمہ عدالت کے سامنے قائم کرنا باقی ہے۔
اس معاملے پر مبصرین کا کہنا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کیس کے بعد خواجہ آصف اور احسن اقبال کی ضمانت سے متعلق اعلی عدلیہ کے فیصلوں نے اس تاثر کو پختہ کردیا ہے کہ حکومتی ایما پر نیب صرف اپوزیشن لیڈرشپ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم نیب ان لوگوں کے خلاف کسی بھی کیس کو عدالت میں ثابت کرنے میں ہر بار بری طرح ناکام ہوتا ہے جس کے باعث اسکی ساکھ صفر ہو کر رہ گئی ہے۔

Back to top button