خیبر پختونخوا کی سائیکلنگ چیمپیئن، ’برقع پہن کر ٹریننگ کے لیے اکیڈمی جاتی‘

پشاور میں خواتین کے لیے خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کی نسبت گھر سے نکلنا آسان ہے تاہم پھر بھی جب کوئی خاتون کسی مختلف شعبے کا رخ کرتی ہے تو اس کو مختلف قسم کی نظروں اور سوالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
برقع پہنے حلیمہ غیور بھی جب اپنے والد کے ساتھ موٹر سائیکل پر سائیکل اٹھائے گھر سے نکلتیں تو آس پڑوس کی نظر ان پر ہوتی۔
22 سالہ حلیمہ غیور صوبائی اور قومی سطح پر چیمپیئن رہی ہیں۔ اب وہ خیبر پختونخوا سائیکل ایسوسی ایشن میں بطور کوچ خدمات انجام دے رہی ہیں۔

پشاور کی’ڈولیاں‘ کہاں جا رہی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ 13 سال کی عمر میں انہوں نے سائیکلنگ سیکھی اور محنت اور لگن سے چھ سونے، آٹھ چاندی اور سات کانسی کے تمغے قومی سطح پر حاصل کیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ آسان سفر نہیں تھا تاہم چونکہ انفرادی طور پر کارکردگی دکھانی تھی اس لیے سائیکلنگ کا شوق تھا۔ ’میں گھر سے برقع پہن کر اکیڈمی کے لیے نکلتی اور والد موٹر سائیکل پر پہنچاتے، میرے ساتھ میری سائیکل بھی ہوتی۔‘
’جب ساتویں جماعت میں تھی تو سائیکلنگ کی اور کم عمر سائیکلسٹ رہی، اور اب جب کوچنگ کا آغاز کیا تو تو بھی اس لحاظ سے عمر کم ہے، تو یہ ایک اعزاز ہے اور مسلسل محنت کا صلہ۔‘
حلیمہ غیور ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں ایم ایس سی کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ وہ خیبر پختونخوا سائیکل ایسوسی ایشن میں 15 لڑکیوں کو سائیکلنگ کی تربیت بھی دے رہی ہیں۔

حلیمہ کو بچپن سے سائیکلنگ کا شوق تھا۔ (فوٹو: بشکریہ حلیمہ غیور)

’ہم ٹریننگ سیشنز اکیڈمی کے علاوہ فیز سیون اورشہر سے باہر ناردرن بائی پر صبح صبح کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شہر میں سائیکلنگ کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں۔ اور سڑکوں کا تو آپ کو پتا ہے اور ہمارے کلچر کا، اور ٹریننگ کے لیے تب جاتے ہیں جب ہمیں سیشنز کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن میری کوشش ہے کہ جن کو تربیت دے رہی ہوں وہ بھی نمایاں ہوں۔‘
خیبر پختونخوا سائیکل ایسوسی ایشن نے حال ہی میں حلیمہ غیور کی ٹریننگ جنوبی کوریا سے کروائی ہے۔
خیبر پختونخوا سائیکل ایسوسی ایشن کے صدر نثار احمد کا کہنا ہے کہ پشاور جیسے قدامت پرست معاشرے میں خواتین کا نکلنا مشکل کام ہے تام وہ خود کو منوا رہی ہیں۔

Back to top button