داسو پر کام بند ہونے سے پاکستان کو یومیہ 50 کروڑ کا نقصان

چینی کنسٹرکشن کمپنی غضوبہ نے کوہستان میں 14 جولائی کو ہونے والے خود کش کار بم دھماکے میں اپنے 10 انجینئیرز کی ہلاکت کے بعد پاکستانی ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ تو واپس لے لیا ہے لیکن داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام تک شروع نہیں ہوگا جب تک چینی باشندوں کو فول پروف سکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔ داسو پراجیکٹ پر کام بند ہونے سے ملکی خزانے کو یومیہ 50 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
یاد رہے کہ چینی کمپنی نے اپنے انجینئرز کی بس پر خودکش حملے کے بعد تمام پاکستانی ملازمین کو فارغ کر دیا تھا جس کے بعد معاملات میں بہتری لانے کے لیے اعلی سطح پر پاکستانی اور چینی حکام کے مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کے بعد اب داسو میں ہونے والے بس دھماکے سے فقط 500 میٹر دوری پر موجود چینی کمپنی کے برسین کیمپ کے زنگ آلود گیٹ پر اب ایک نیا نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے۔ داسو پاور پراجیکٹ پر کام معطل کرنے اور پاکستانی ملازمین کو فارغ کرنے کا اطلاع نامہ اتار کر جو نیا نوٹس لگایا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی نے پاکستانی ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کی منظوری نہیں دی اور اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب تمام پاکستانی ورکرز جن کی تعداد 1900 کے قریب ہے انہیں داسو ہاییڈرو پاور پراجیکٹ میں ملازمت پر بحال کر دیا گیا ہے۔

کمپنی کی جانب سے اس پیغام کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے تاکہ عید سے پہلے کیمپ سے چلے جانے والے ملازمین تک بھی یہ خبر پہنچ جائے کہ وہ نوکری جاری رکھ سکیں گے۔ تاہم داسو پراجیکٹ پر کام کب تک بحال ہو گا ابھی اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ چینی حکام کا سب سے بڑا مطالبہ فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا ہے تاکہ چینی باشندوں کی زندگی کی ضمانت دی جا سکے۔ محتاط اندازے کے مطابق داسو پاور منصوبے کا کام بند ہونے سے پاکستان کو یومیہ 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

دوسری جانب چینی حکام داسو دھماکے کی تحقیقات اور پاکستانی حکام سے بریفنگز لینے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں تاکہ جان سکیں کی ان کے انجینئرز کو نشانہ بنانے کی کاروائی کن لوگوں نے کی۔ ایک 15 افراد پر مشتمل چینی تحقیقاتی مشن اس وقت پاکستان میں ہے اور 14 جولائی کے بس بم حملے کی تحقیقات کرنے میں مصروف ہے۔

چینی کنسٹرکشن کمپنی سے منسلک ایک عہدے دار نے بتایا کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ اندرونی مخبری کے بغیر ممکن نہیں اور اسی شک کی بنیاد پر پاکستانی ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسکا کہنا تھا کہ زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ پاکستانی حکام نے دہشت گردی کی اس کارروائی کو گیس سلنڈر کا دھماکے قرار دے دیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ واقعے کی نوعیت اور زخمیوں اور مرنے والوں کی جسمانی حالت واضح اشارہ کر رہی تھی کہ یہ بم دھماکہ ہی ہے۔ چینی کمپنی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس غلط بیانی کے بعد چینی حکام غصے میں آگئے اور پاکستانی ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب پاکستانی حکام کی جانب سے چینی سفیر اور ملٹری اتاثشی کو دی جانے والی بریفنگ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بورڈ پر واقعے کو دہشت گرد حملہ لکھا گیا ہے۔ اس بریفنگ میں چینی حکام کو بتایا گیا ہے کہ بارودی مواد لوکل سطح پر تیار ہوا جس میں بال بیرینگ استعمال نہیں ہوئے۔ ابتدائی تحقیقات میں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ چینی انجینئرز کی بس کو ایک کار سوار خودکش بمبار نے نشانہ بنایا جس کے بعد اس کے آگے چلنے والی سکیورٹی کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں موجود تین اہلکار جاں بحق ہو گے۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ اس سے چینی انجینئرز کی بس فضا میں اچھل کر سڑک سے نیچے دریا کے کنارے جا گری جس سے دس انجینئرز ہلاک ہوگئے۔ تفتیش کاروں کو دھماکے کے مقام سے ایک انسانی کھوپڑی اور حملے میں استعمال ہونے والی ہونڈا کار کے پرزے مل چکے ہیں جن کا فورنزک تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی حکام نے اپنے انجینئرز کی ہلاکت کو پاکستانی سکیورٹی حکام کی غفلت قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے اور واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ معاملات کو فوری سنبھالنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے نے چینی وزیراعظم کو فون کیا اور یقین دہائی کروائی کہ تمام چینی باشندوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ عمران خان نے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو جلد ہی چین کا دورہ کرنے کو کہا ہے۔

دوسری جانب چینی کمپنی نے 1900 پاکستانی ملازمین کا روزگار تو بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے اس اہم منصوبے کے کام کی بحالی اور تسلسل کے لیے سکیورٹی کی کیا منصوبہ بندی کی جائے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان چینی حکام اور یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کو واقعی تحفظ کا احساس دلانے میں کامیاب ہو سکے گا کیونکہ داسو پراجیکٹ کے علاوہ ایک بڑا پراجیکٹ سی پیک ہے جس میں ہزاروں چینی باشندے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ دریائے آباسین کے اوپر زیر تعمیر داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت 4320 میگاواٹ ہے۔ اس کی ابتدائی اسیسمنٹ 2011 میں ہوئی اور زمینوں کے حصول کے باقاعدہ سیکشن فور 2012 کے آخر میں لگا۔ اگرچہ اس منصوبے کو 2025 تک مکمل ہونا تھا لیکن زمین سمیت واجبات کی ادائیگیاں اور گاہے بگاہے ہونے والے احتجاج نے اس کو سست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ اب تک داسو پراجیکٹ کا 30 فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکا۔

یاد رہے کہ اس منصوبے کا گارینٹر ورلڈ بینک ہے جو 20 فیصد فنڈنگ کرتا ہے جبکہ دیگر فنڈنگ دوسرے بینکوں سے ملتی ہے۔ دوسری جانب غضوبہ کنسٹرکشن کمپنی کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ علاقے میں اس پراجیکٹ سے 30 سے 40 فیصد لوگوں کو روزگار ملا ہے لیکن ملازمتیں ختم کرنے کی خبر پر سب لوگوں بہت مضطرب تھے۔ ’لوگ بہت ناخوش اور غم میں مبتلا تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات سن اور دیکھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پہلی بار یہاں دھماکہ ہوا اور علاقے کی بدنامی بھی ہوئی اور ہمارا روز گار بھی متاثر ہوا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان 1900 افراد کی بات کی جائے تو یہ 1900 خاندان ہیں جو ماہانہ 20 ہزار کے قریب کمائی کرتے ہیں اور اس صورتحال میں یعنی ان کی نوکریاں جانے سے مجموعی طور پر مکینوں کو 38 کروڑ کا نقصان ہوتا۔‘ تاہم پاکستان کے لیے نقصان کی بات یہ ہے کہ داسو منصوبے پر کام رک جانے سے قومی خزانے کو روزانہ 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

Back to top button