دلیپ کمار نے پاک بھارت دوستی کے لیے خفیہ دورے بھی کیے


بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پیدا ہونے والی یوسف خان عرف دلیپ کمار پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے تھے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے پاکستان کے کچھ خفیہ دورے بھی کیے تھے۔ یہ انکشاف سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی ایک کتاب میں کیا یے۔ خورشید قصوری نے اپنے انڈیا کے ایک دورے کے دوران دلیپ کمار کے گھر قیام کیا تھا، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے قیام کے لیے دلیپ کمارکے گھر کا انتخاب کیوں کیا؟ تو خورشید قصوری نے دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’دلیپ کمار نے بھارت اور پاکستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے دو مرتبہ پاکستان کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا اور یہ بات میں نے اپنی کتاب ’نیدر اے ہاک نور اے ڈو‘میں بھی لکھی ہے۔‘ خورشید قصوری نے کہا ’دلیپ کمار وہ آدمی تھے جو انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لا سکتے تھے، انہون نے بتایا کہ جب میں نےانہیں اپنی کتاب پیش کی تو انہوں نے بھی اپنی سوانح عمری اپنے دستخط کے ساتھ مجھے دی تھی، میرے اس دستخط شدہ کتاب کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔‘
یاد رہے کہ دلیپ کمار پشاور میں پیدا ہوئے، تقسیم کے بعد انڈیا چلے جانے اور بالی وڈ میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود انہوں نے پاکستان سے اپنا تعلق کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھا۔ اِدھر پاکستان میں بھی دلیپ کمار کے مداحوں کی بہت بڑی تعداد ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ دلیپ کمار کا پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے خوشگوار تعلق کا بھی ایک حوالہ ہے ، یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔
پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے کی غرض سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دلیپ کمار نے عمران خان کے بارے میں کہا تھا کہ خوش نصیب ہے وہ ماں کہ جس کی کوکھ سے ایسا بچہ ، اس قدر حسین اور شجاعت والا لڑکا پیدا ہوا کہ جس کے اتنے بلند ارادے ہیں. ’آپ سب پاکستان کے رہنے والے اور عمران کے عزیز و اقارب خوش قسمت ہیں کہ آپ کے اندر اس قدر شجاعت والا ایک شخص ہے جو باؤلنگ کرتے کرتے بیٹنگ کرتے کرتے اپنے آپ کو کہاں سے کہاں لے آیا ہے ، اس اونچی منزل پرعمران صاحب! ہماری دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کرم آپ کے شاملِ حال ہو۔‘
1998 میں نواز شریف کے دوسرے دور میں حکومت پاکستان نے لیجنڈ دلیپ کمار کے فن کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ’نشان امتیاز‘ سے بھی نوازا تھا۔ دلیپ کمار کو پاکستان کی حکومت کی جانب سے سول ایوارڈ دیے جانے کے اعلان کے بعد انڈیا میں انتہاپسند ہندوؤں نے جہاں ان پر یہ ایوارڈ وصول نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا وہیں پاکستان میں بھی اس اعلان کی مخالفت کی گئی۔ اس مخالفت کی کہانی معروف صحافی ضیاء شاہد نے اپنی کتاب ’نورجہاں، دلیپ کمار اور دوسرے فلمی ستارے‘ میں لکھی ہے۔ ضیاء شاہد لکھتے ہیں کہ ’جب نواز شریف نے بطور وزیر اعظم صدر رفیق تارڑ کے دور میں دلیپ کمار کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز ’’نشان ِامتیاز‘‘ سے نوازنا چاہا تو میں نے ہی لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی کہ انہیں سب سے بڑا سول اعزاز نہ دیا جائے۔‘ ضیا شاہد نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’دلیپ کمار نے چند ماہ پیشتر بھارت کے دو اخبارات ’’عوام ‘‘ اور ’’نئی دنیا‘‘ دلی کو دیے گئے انٹرویوز میں پاک بھارت سرحد کو وہ خونی لکیر قرار دیا تھا جس نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا۔‘
ضیاء شاہد نے خود ہی آگے چل کر لکھا کہ اس وقت عدالت نے اس معاملے کو صدر کی صوابدید پر چھوڑ دیا لیکن اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے ضیاء شاہد کے مطالبے کو زیادہ اہمیت نہ دی اور اپنے ہاتھوں سے انہوں نے دلیپ کمار کے سینے پر یہ تمغا سجایا۔ صحافی ضیاء شاہد کے تحفظات اپنی جگہ لیکن اس کے بعد کئی موقعوں پر دلیپ کمار کی گفتگو سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سرحد کے دونوں اطراف بسنے والوں کے درمیان باہمی رابطوں کے فروغ کے زبردست حامی ہیں۔ ’نشان امتیاز‘ وصول کرنے بعد دلیپ کمار نے میڈیا سے جو مختصر بات کی تھی، وہ بھی دونوں طرف کے عوام کے درمیان بہتر روابط کی خواہش پر مبنی تھی ۔ اس موقع پر دلیپ کمار نے کہا تھا:’میں آنر محسوس کر رہا ہوں ، میں امید کرتا ہوں کہ یہ ایوارڈز اور اس قسم کے ثقافتی روابط سرحد کے اطراف میں محبتوں کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے اور یہ ہمیں ایک دوسرے کے قریب کریں گے۔‘
دلیپ کمار پاکستان آئے تو اپنے آبائی شہر پشاور بھی گئے۔ پشاور شہر کے قلعہ بالا حصار کی سیر کے دوران انہوں نے میوزیکل بینڈ کی خوبصورت دھن پر اپنی اہلیہ سائرہ بانو کے ساتھ رقص بھی کیا تھا۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ قلعہ بالا حصار میں گھوم رہے ہیں اور ہاتھ میں مائیک تھامے اپنی کہانی بھی سنا رہے ہیں ’یہ شہر بہت سی یادوں کی آماج گاہ ہے ، بچپن سے لے کر لڑکپن تک کی یادیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ میری زندگی کی داستان بھی اسی قلعے سے وابستہ ہے۔‘ پشاور میں انہوں نے ایک تقریب میں ہندکو زبان میں بھی گفتگو کی ، جب سامنے موجود کچھ لوگوں نے ان سے پشتو میں بات کرنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے چند جملے بولے اور کہا کہ ’میری پشتو ذرا خستہ حال ہے، اس لیے ہندکو بولوں گا، آپ اسے پشاوری کہہ لیں۔‘
گورنر ہاؤس پشاورمیں دلیپ کمار کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک رنگا رنگ تقریب میں ممتاز شاعر احمد فراز نے اپنی مشہور غزل ’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘ سامنے بیٹھے ’شہنشاہ جذبات ‘ دلیپ کمار کی نذر کی۔
اسی محفل میں جب دلیپ کمار سٹیج پر آئے تو وہ شعر بھول گئے جو وہ سنانا چاہتے تھے ، پھر انہوں نے ایک اور شعر سنایا:
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

Back to top button