رنگ روڈ اسکینڈل میں کپتان کے پیاروں کو بچالیا گیا


کپتان سرکار نے حسب روایت ایک بار پھر راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں ملوث دو کابینہ اراکین کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے غلام سرور خان اور زلفی بخاری کو کلین چٹ دے دی ہے جبکہ منصوبے سے منسلک دو بیوروکریٹس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے یہ کیس نیب کو بھجوانے کی بجائے اپنے ماتحت ادارے اینٹی کرپشن پنجاب کے سپرد کیا تھا اور اب اس محکمے سے رنگ روڈ سکینڈل کی اپنی مرضی کی انکوائری رپورٹ حاصل کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان اور وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی زلفی بخاری کو باقاعدہ کلین چٹ دلوا دی ہے۔ دوسری جانب کرپشن کا سارا مدعا دو بیوروکریٹس پر ڈالتے ہوئے راولپنڈی کے سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود اور رنگ روڈ کے لیے زمین حاصل کرنے والے لینڈ کلیکٹر عباس تابش کو گرفتار کرلیا ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان میں ایک بری روایت چل پڑی ہے کہ جب بھی کسی حکومتی شخصیت پر کرپشن کا کوئی الزام آتا ہے تو اپوزیشن رہنماؤں کی طرح نیب یا ایف آئی کو ان کی پیچھے لگانے کی بجائے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں یا نام نہاد انکوائری کے ذریعے انہیں کلیئر کروا کے شفافیت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ ماضی میں بھی عمران خان کابینہ کے کئی اراکین کو کرپشن الزامات پر فارغ کیا گیا تاہم انخے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ کابینہ کا حصہ بنا دیے گئے۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں نام آنے کے بعد زلفی بخاری نے کلین چٹ ملنے تک کابینہ سے باہر رہنے کا اعلان کیا تھا اور اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے تاہم غلام سرور خان بدستور وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں وزیر صحت عامر محمود کیانی، مشیر پٹرولیم ندیم بابر اور دیگر کابینہ اراکین کے نام کئی بڑے سکینڈلز میں آئے تاہم ان کا احتساب کرنے کی بجائے انہیں بھی کلین چٹ دے دی گئی تھی۔ اس سے پہلے رنگ روڈ اسکینڈل انکوائری کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اصل منصوبے کو تبدیل کردیا گیا تھا اور متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس میں متعدد نئے راستے شامل کیے گئے۔ منصوبے میں تبدیلی سے اس کی لاگت 25 ارب روپے ہوگئی تھی۔ ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ منصوبے میں تبدیلی کے پیچھے زلفی بخاری اور غلام سرور خان کا ہاتھ تھا جنہوں نے اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کی زمینوں کی قیمت بڑھانے کے لیے ایسا کیا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے رنگ روڈ منصوبے کو 2018 میں منظور کیا تھا۔ راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ کے کچھ اراکین رنگ روڈ منصوبے میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ اس رپورٹ کے بعد اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا جبکہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کلین چٹ ملنے کے بعد زلفی بخاری جلد کابینہ میں دوبارہ شامل کر لئے جائیں گے۔ یاد رہے کہ زلفی بخاری رنگ روڈ انکوائری شروع ہونے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
دوسری جانب پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے رنگ روڈ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں راولپنڈی کے سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود اور سرکاری مقصد کے لیے زمین حاصل کرنے والے لینڈ کلیکٹر عباس تابش کو گرفتار کرلیا ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن والوں کا کہنا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے منسلک سابق کمشنر اور لینڈ کلیکٹر کے خلاف تفصیلی تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ رنگ روڈ منصوبے میں تبدیلی کے لیے نہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب سے منظوری لی گئی اور نہ ہی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے این او سی لیا گیا۔ اینٹی کرپشن والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے انٹر چینجز کو شامل کرنے کے لیے منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی اور سڑک کی لمبائی 22 کلو میٹر سے بڑھا کر 68 کلومیٹر کردی گئی۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ رنگ روڈ منصوبے میں تبدیلی کی پہلی منظوری وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے دی جبکہ اسکی حتمی منظوری وزیر اعظم عمران خان نے دی تھی لیکن محکمہ اینٹی کرپشن نے ان حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے سارا مدعا دو بیوروکریٹس پر ڈال دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق رنگ روڈ منصوبے میں تبدیلی سے 50 سے زیادہ بااثر افراد، رئیل اسٹیٹ ڈیلرز اور اس پراجیکٹ سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ہوگا تھا جو کہ اس علاقے میں 64 ہزار کنال اراضی خرید چکے تھے۔ ان لوگوں میں زلفی بخاری کی ہمشیرہ اور غلام سرور خان کے بیٹے کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن ان دونوں کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کپتان حکومت نے اپنے پیاروں کو رنگ روڈ سکینڈل میں پکڑے جانے سے بچانے کے لیے انصاف اور احتساب کے نام پر محکمہ اینٹی کرپشن کے ذریعے ایک مذاق کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ غلام سرور خان اور زلفی بخاری جیسے اصل کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے بیوروکریٹس کو قربانی کا بکرا بنانے کی روش سے بیوروکریسی میں مایوسی مذید بڑھے گی اور عوام کا حکومت پر اعتماد مذید کم ہو جائے گا۔

Back to top button