ریکو ڈیک کیس میں پاکستان کے لیے ایک اور بڑا دھچکا

لندن ہائی کورٹ آف جسٹس میں زیر سماعت ریکوڈک کیس میں پاکستان کو اس وقت ایک بڑا دھچکا پہنچا جب لندن ہائی کورٹ نے پاکستان کی جانب سے ریکوڈک کمپنی پر لگائے گے کرپشن اور رشوت کے الزامات کی سماعت سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو ناقص قرار دے دیا۔ 98 صفحات پر مبنی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ کرپشن الزامات کی بنیاد پر نہیں تھا، اس لیے ریکوڈیک کمپنی کے خلاف پاکستان کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے برطانوی ہائی کورٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ ریکوڈیک کمپنی نے کنٹریکٹ لینے کے لیے حکام کو بھاری رشوت دی تھی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان یہ تنازع تب شروع ہوا جب کمپنی نے پاکستان پر 8 ارب 50 کرور ڈالر کا دعویٰ دائر کر دیا کیونکہ بلوچستان کی کان کنی اتھارٹی نے اسے صوبے میں 2011 میں کئی ملین ڈالر کی کان کنی کی لیز دینے سے انکار کردیا تھا۔ بعد ازاں جولائی 2019 میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل نے آسٹریلین کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا جس کے فوری بعد کمپنی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی۔ نومبر 2019 میں پاکستان نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہرجانے کی منسوخی کی درخواست کی تھی۔
اب لندن ہائی کورٹ آف جسٹس نے پاکستان کو ریکوڈک کیس میں کرپشن الزامات کی معروضات سے روک دیا ہے، جسے انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس (آئی سی سی) نے چیلنج کیا تھا اور اسے جزوی طور پر آسٹریلیا کی کان کنی کی کمپنی تیتھیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی) کو دیا گیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان سونا نکالنے والی کمپنی کے خلاف کرپشن الزامات کی درخواست نہیں دے سکتی کیوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ریکوڈک کیس میں فیصلہ کرپشن الزامات کی بنیاد پر نہیں تھا۔
لندن میں مقیم سینئر صحافی مرتضی علی شاہ کے مطابق لندن ہائی کورٹ آف جسٹس کا فیصلہ پاکستان کے لیے بری خبر ہے کیوں کہ پاکستان کی لیگل ٹیم سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی بنیاد پر پورے کیس کو ختم کرنا چاہتی تھی، لیکن لندن ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے عالمی مصالحت کاری کے دوران نہ تو کسی کرپشن کا مسئلہ اٹھایا اور نہ ہی ایسا کوئی الزام عائد کیا۔
حکومت بلوچستان نے ریکوڈیک کے خلاف برطانوی ہائی کورٹ آف جسٹس میں کرپشن کا الزام عائد کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ یہ معاملہ آئی سی سی کے دائرہ کار میں نہیں آتا، لیکن برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا کہ برطانوی مصالحتی قانون فریقین کو عدالت میں ایسا مسئلہ اٹھانے سے روکتا ہے، جسے اسی کیس میں مصالحت کے دوران اٹھایا نہ گیا ہو۔ برطانوی جج روبن نے کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے معاہدہ منسوخ کرتے وقت اپنے فیصلے میں کرپشن الزامات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کرپشن سے متعلق حوالے ناکافی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جہاں تک کرپشن الزامات کا تعلق ہے تو کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ معلوم ہوا تھا کہ معاہدے کرپشن کی وجہ سے ختم کیے گئے؟ ان کا کہنا تھا کہ میرے فیصلے کے مطابق ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے لکھا کہ بلوچستان حکومت کے پاس وافر مواقع تھے کہ وہ عالمی ٹریبونل میں کرپشن الزامات اٹھاتے لیکن انہوں نے ایسا نا کیا اور کیس کے لیے مختلف راستے کا انتخاب کیا۔ لندن ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ اس نے پاکستان کے خلاف ٹی سی سی کے دعویٰ پر ٹریبونل کے دائرہ اختیار کو قبول کیا۔ انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ اگر صوبے کے پاس کرپشن سے متعلق الزامات پر ثبوت ہیں تو وہ آئی سی سی ٹریبونل کے پاس نہیں ہیں ایسے میں یہ صوبے کی ذمہ داری تھی کہ وہ مصالحتی ٹریبونل کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھاتا۔ یہ صوبے کے لیے قانونی جواز پیدا نہیں کرتا کہ وہ عدالت میں بطور چیلنج اٹھائے جو کہ مصالحتی ٹریبونل کے اختیار میں ہو۔
برطانوی جج نے فیصلہ دیا کہ صوبہ بلوچستان کرپشن الزامات پر کیس اس لیے دائر نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ مصالحتی دعویٰ فارم میں شامل نہیں تھا۔ چلی کی کمپنی انتوفاگاستا اور کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ پہلے ہی 6 ارب ڈالرز جرمانے کے طور پر حاصل کرچکی ہے۔ 12 جولائی، 2019 کو آئی سی ایس آئی ڈی نے 5.976 ارب ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ جب کہ حکومت پاکستان کو تیتھیان کو ریکوڈک سے کان کنی کی لیز دینے سے انکار کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس کے خلاف پاکستان نے اپیل کی تھی، جس پر اکتوبر میں فیصلہ دیا گیا کہ تیتھیان کو جرمانے کی آدھی رقم حاصل کرنے کا اختیار ہے۔
اب ایک برطانوی جج نے قرار دیا ہے کہ ریکو ڈیک کیس میں ثالثی ٹریبونل کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے پاکستان کو دفاع کے طور پر بدعنوانی کے الزامات لگانے کا حق نہیں ہے۔ بلوچستان بمقابلہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کیس میں لندن ہائی کورٹ کے جج نے پاکستان کی اس مؤقف کو رد کردیا جس میں اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا اور کہا کہ یہ ظاہر کرنا کافی نہیں کہ ٹریبونل کے سامنے بدعنوانی کے الزامات پیش کیے گئے۔
فیصلے کے مطابق برطانیہ کا ثالثی قانون فریقین کو عدالت کے سامنے وہ معاملات پیش کرنے سے روکتا ہے جو ثالثی کے دوران نہ اٹھائے گئے ہوں۔
فیصلے میں جج کا کہنا تھا کہ ‘بدعنوانی کے بارے میں وضاحتیں یا حوالہ جات ناکافی ہے، جہاں تک بدعنوانی سے متعلق سوال کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ دیکھا تھا کہ معاہدہ اور متعلقہ سمجھوتے بدعوانی کی موجودگی کی وجہ سے کالعدم ہوئے’۔ جج نے مزید لکھا کہ ‘میری رائے میں ایسا نہیں تھا، اگر صوبے کے پاس بدعنوانی سے متعلق شواہد تھے جنہیں آئی سی سی ٹریبونل کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تو صوبے کو یہ معاملات ثالثی ٹریبونل کے ساتھ حل کرنے چاہیے، یہ صوبے کے لیے جائز نہیں کہ انہیں ثالثی ٹریبونل کا دائرہ کار چیلنج کرنے کے لیے عدالت کے سامنے پیش کرے’۔