سائنسدانوں نے نیا ’نانی اماں‘ یادداشتی نیورون دریافت کرلیا
اکثر ایسا ہوتا ہےکہ جب ہم کوئی چہرہ دیکھتے ہیں تو یکلخت خیال آتا ہے کہ یہ پہلے سے دیکھا ہوا ہے۔ یا پھر ہم اس میں شناسائی یا اپنے کسی عزیز کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود ماہرین اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر تھے لیکن اب یادداشتی بصری خلیات (نیورون) کی بالکل نئی قسم دریافت ہوئی ہے جس سے ہمیں اس دماغی صلاحیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اسے ماہرین نے دادی یا نانی اماں نیورون کا غیرتکنیکی نام بھی دیا ہے کیونکہ اکثر اوقات ہم لوگوں کے چہروں کو اپنے بزرگوں سے بھی وابستہ کرلیتےہیں۔ یہ خلیات دماغ کے ’ٹیمپرل حصے‘ میں پائے جاتےہیں۔ یہ علاقہ (اور اس سے وابستہ نیورون) کسی چہرے کے نقوش کو طویل المدتی یادداشت سے وابستہ رکھتا ہے۔
لیکن اس میں بہ یک وقت کئی خلیات مل کر ہمیں اپنی نانی یا دادی کا چہرہ یاد رکھنے میں مدد دیتےہیں۔ اس کی تمام تفصیل جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ اس سے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ کس طرح ہمارا دماغ ایک طویل عرصے تک ہمارے عزیزوں کے چہرے کے خدوخال دماغ میں زندہ رکھ کر اسے کسی پرانی تصویرکی طرح دوسروں سے ملاتا رہتا ہے۔
راک فیلر یونیورسٹی میں برتاؤ اور نیوروسائنس کے ماہر پروفیسر ونرخ فرائی والڈ کہتے ہیں کہ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ مسلمہ سائنسی تحقیق ہے کہ دماغ کا نچلا ٹیمپرل کنارہ ’نانی اماں‘ نیورون کی بہترین جگہ ہوسکتا ہے کیونکہ یہاں چہروں ، انکے احساس اور ان سے وابستہ طویل یادداشتیں تحریر ہوتی ہے۔
1960 کے عشرے میں دماغی ماہرین کو یہ جاننے کی سوجھی کہ دماغ کا اخر وہ کونسا حصہ ہے جو حافظے میں بزرگوں، نانی، دادی، والد اور والدہ کے چہروں کو ایک عرصے تک یاد رکھتا ہے۔ پھر زندگی میں اچانک کئی بار سرگرم ہوکر اجنبنیوں میں ہمارے ان پیاروں کے نقوش تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نظری طور پر خیال کیا گیا کہ ایک نیورن دادی، دوسرا نیورون نانی، تیسرا نیورون ماں اور چوتھا نیورون باپ کے چہرے کے اعصابی نقش طویل عرصے محفوظ رکھتا ہے۔
لیکن اس کے ثبوت نہ ملے، تاہم چہرے اور اور اس سے وابستہ دیرپا حافظے کے سینسری (حس رکھنے والے) کئی عصبئے یا نیورون دریافت ہوتے رہے۔ لیکن بصارت، چہرے کی شناخت اور پرانی یادداشت، ان تینوں کو جوڑنے والا کوئی خلیہ یا خلیاتی نظام سامنے نہ آسکا۔
پروفیسر ونرخ فرائی والڈ اس کوشش میں لگے رہے اور ہمت نہ ہاری۔ اب وہ کہتے ہیں کہ دماغ میں ٹیمپرل پول ( ٹی پی) ریجن اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے فنکشنل ایم آرآئی سے ریزز بندروں کا دماغ کھوجا ہے۔ اس میں بندروں کو پہلے حقیقی طور پر کچھ چہرے دکھائے گئے تھے۔ یہ چہرے ان کی یادداشت کا حصہ بنے۔ اس کے کچھ دن بعد انہیں ان چہروں کی صرف تصاویر دکھائی گئیں اور اس دوران ایف ایم آر آئی سے دماغ کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ اس دوران ٹی پی علاقے سے آنے والے والے سگنل اور سرگرمی کا بطورِ خاص جائزہ لیا گیا ۔ تاہم درمیان میں بعض غیرمانوس چہروں کی تصاویر بھی ڈالی گئیں۔
غیرشناسا چہروں کے مقابلے میں جب مانوس چہروں کی تصاویر سامنے آئیں تو بندروں کے دماغ کے عین اسی گوشے میں برقی سرگرمیوں کے کوندے لپکے جو اس ٹی پی کی سرگرمی دکھاتے ہیں۔ اس تحقیق سے دو باتیں سامنے آئیں: اول ٹیمپرل علاقہ ہمیں چہرے اور اس سے وابستہ طویل حافظہ فراہم کرتا ہے اور دوم اس میں ایک عصبیاتی خلیات کے بجائے بہت سارے خلیات مل کر ایک اہم لیکن پیچیدہ کردار ادا کرتے ہیں۔
اب اس کا دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک اور تحقیق میں جب اسکرین پر دکھائے جانے والے چہروں کا بندروں کے سامنے لائے جانے والے حقیقی چہروں سے موازنہ کیا گیا تب ہی ٹی پی میں زیادہ سرگرمی دیکھی گئی۔
توقع ہے کہ اس تحقیق سے ایک تکلیف دہ کیفیت ’پروسپیگنوشیا‘ کے شکار افراد کے علاج کی راہ ہموار ہوگی جس مین لوگ چہرے یاد نہیں رکھ سکتے۔ اس کیفیت کو عام زبان میں ’چہرے کا اندھا پن‘ یا فیس بلائنڈنیس بھی کہا جاتا ہے۔