سعد رضوی پر مزید کیس ڈال کر جیل میں رکھنے کا فیصلہ
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے حکم کے باوجود اس پر عمل درآمد کا امکان اس لئے نہیں کیونکہ حکومت نے دیگر کیسز میں ان کی گرفتاری ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ علامہ خادم حسین رضوی کا فرزند ہونے کے ناطے سعد ہی پارٹی کا اصل چہرہ ہیں لہذا عالمی دباؤ اور ایجی ٹیشن سے بچنے کے لئے حکومت فی الحال انہیں جیل سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے گی۔
یاد رہے کہ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی نظربندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی، جس کے بعد ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ تاہم حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ سعد رضوی کو فی الحال رہا نہیں کیا جارہا اور ان کو دیگر کیسوں میں گرفتاری ڈال کر سلاخوں کے پیچھے ہی رکھا جائے گا۔
گذشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل صوبائی جائزہ بورڈ نے بند کمرے میں کیس کی سماعت کی تھی جہاں محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی میں توسیع کی درخواست سنی گئی۔ کیس کی سماعت کے بعد عدالت نے سعد رضوی کی رہائی کا حکم سنایا تھا۔ اس کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد لبیک والے خاصے پر امید تھے کہ اب بہت جلد سعد رضوی انکے درمیان ہوں گے، لیکن حکومتی ذرائع نے کنفرم کیا ہے کہ سعد کو پابند سلاسل رکھا جائے گا۔
دوسری جانب حکومتی اور ریاستی ادارے تحریک لبیک کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اپنانے کی بجائے کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایک جانب تو اس کے سربراہ کو جیل میں رکھا جارہا ہے تو دوسری جانب انکی جماعت کو آزاد کشمیر سے پاکستان تک ہر جگہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود لبیک کے امیدواروں نے نہ صرف پاکستان میں ضمنی الیکشن میں حصہ لیا بلکہ وہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی بھرپور انداز میں شرکت کرر ہی ہے۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے تحریک لبیک پر پابندی لگوانے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں ریاست تحریک لبیک پر مکمل پابندی کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ حافظ سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسایا تھا کیونکہ ان کے بقول حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔اس سے قبل فرانس میں حضور نبی اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک پاکستان حکومت پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی کیونکہ فرانسیسی صدر کی طرف سے ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت کی گئی تھی۔گزشتہ سال نومبر میں ٹی ایل پی اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا تاکہ اس معاملے کو تین ماہ میں طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی رائے لی جا سکے۔ 16 فروری کی ڈیڈ لائن قریب آتے دیکھ کر حکومت نے معاہدے پر عمل درآمد پر معذوری ظاہر کرتے ہوئے مزید وقت طلب کیا تھا، اس کے بعد ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج ڈھائی ماہ 20 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔ڈیڈ لائن کے اختتام سے ایک ہفتہ قبل سعد نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کے کارکنوں سے کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو وہ لانگ مارچ کے لیے تیار رہیں اور اس پیغام کے بعد حکومت نے 12اپریل کو ٹی ایل پی سربراہ کو گرفتار کر لیا تھا۔جس کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اگلے ہی دن پولیس نے ٹی ایل پی سربراہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی اور مقدمے کے اندراج کے چند گھنٹوں کے اندر ہی مظاہرین لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور متعدد مقامات پر جی ٹی روڈ بلاک کردیا تھا۔اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں اور دھرنے کے بعد حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی اور حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر سعد کو حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔