سفیر کی بیٹی کا قاتل ذہنی مریض ہونے کا ڈرامہ کرنے لگا

اسلام آباد میں 20 جولائی کو ایک سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کو گولی مارنے کے بعد ذبح کرنے والے سفاک قاتل ظاہر جعفر نے اب خود کو ذہنی مریض ثابت کر کے سزا سے بچنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نور مقدم کو 20 جولائی کے روز بہیمانہ طریقے سے قتل کر کرنے کے بعد قاتل نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا تھا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق نور مقدم کو گولی مارنے کے بعد تیز دھار آلے سے اسکا گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔ نور مقدم کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں مقتولہ کے دوست ظاہر جعفر کو نامزد کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ لڑکی کا قاتل ظاہر مشہور کنسٹرکشن ادارے جعفر برادرز کے مالک کا بیٹا ہے اور اب خود کو ذہنی مریض ثابت کرکے سزا سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے وقت ملزم نے شدید مزاحمت کی لیکن اس کا ذہنی مریض ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔
پولیس حکام کے مطابق لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیٹی 19 تاریخ کو گھر سے گئی تھیں مگر اس کے بعد ان کا فون نمبر بند ہو گیا تھا، تاہم دوبارہ رابطہ ہونے پر مقتولہ نے بتایا کہ وہ لاہور جا رہی ہیں۔ پولیس کے مطابق بعدازاں اسلام آباد میں اُن کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی۔ ایف آئی آر کے مطابق مقتولہ نور مقدم کے والد نے بتایا کہ ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی فیملی سے ان کی ذاتی واقفیت ہے۔ ان کے مطابق 20 تاریخ کو انھیں ظاہر جعفر نے کال کی اور بتایا کہ نور ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رات دس بجے انھیں تھانے سے کال آئی کہ آپ کی بیٹی نور مقدم کا قتل ہو گیا ہے آپ تھانہ کوہسار آ جائیں۔ پولیس انھیں جس گھر میں لے کر گئی وہ ان کے بقول ذاکر جعفر کا گھر تھا۔ ’میں نے گھر کے اندر جا کر دیکھا کہ میری بیٹی کو بے دردی سے تیز دھار آلے سے قتل کر کے اس کا سر جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا ہے۔‘
لڑکی کے قتل کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا پر جسٹس فار نور کا ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قاتل کو بااثر ہونے کی وجہ سے کیس کی تحقیقات پر اثرانداز ہونے سے روکا جائے کیونکہ وہ خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کا جھوٹا ڈراما رچا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ملزم ظاہر ماضی میں بھی پر تشدد وارداتوں میں سزا کاٹ چکا ہے اور اس کا امریکہ اور برطانیہ میں بھی کریمینل ریکارڈ موجود ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس قتل کا نوٹس لیے جانے کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد قاضی جمیل الرحمٰن نے نور مقدم کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ مشتبہ ظاہر ذاکر جعفر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے۔ آئی جی پی نے انویسٹی گیشن ٹیم کے ساتھ ایک اجلاس میں ان سے کہا کہ وہ متعلقہ اتھارٹی کو سفارش کریں کہ ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔ انہوں نے ٹیم کو امریکا اور برطانیہ سے ظاہر جعفر کے مجرمانہ ریکارڈ حاصل کرنے کی بھی ہدایت کی اور ان سے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے رجوع کریں۔ آئی جی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مقدمے کی سماعت جلد اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں ہو گی اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے تاکہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جاسکے۔
سابق پاکستانی سفارت کاروں کی تنظیم نے بھی چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کو اس قتل ظاہر نوٹس لینے کی اپیل کی ہے اور خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات میں حالیہ اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
تنظیم کی جانب سے کہا گیا کہ ‘نور مقدم اور عثمان مرزا جیسے کیسز ملک و قوم کو بدنام کرتے ہیں’۔ چیف جسٹس سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ سفاک قاتل سزا سے بچنے کے لیے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کا جو ڈرامہ رچا رہا ہے اسے بھی بے نقاب کیا جائے۔