سندھ حکومت نےصحافی عزیز میمن کے قتل پر جے آئی ٹی تشکیل دیدی

سندھ حکومت نے صحافی عزیز میمن کے قتل پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے. جے آئی ٹی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس حیدرآباد کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے.9 رکنی جے آئی ٹی کی تشکیل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی منظوری کے بعد کی گئی ہے۔
صوبائی محکمہ داخلہ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے مطابق جے آئی ٹی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس حیدرآباد ریجن کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی میں پولیس، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، اسپیشل برانچ کے افسران اور ماہرین کو شامل کیا گیا ہے. ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کرینگے۔ جے آئی ٹی صحافی عزیز میمن کے قتل کے اسباب، محرکات اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ جے آئی ٹی صحافی عزیز میمن کے قتل کیس میں بیانات قلمبند کرکے 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔
گزشتہ ماہ 16 فروری کو ضلع نوشہروفیروز کے شہر محراب پور میں سندھی چینل کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کی لاش نہر سے برآمد ہوئی تھی جس کے بعد قتل کے شبے میں ان کے ساتھی کیمرہ مین کو حراست میں لیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس حیدرآباد ریجن ڈاکٹر ولی اللہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں صحافی کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی کا کہنا تھا کہ نجی ٹی وی کے رپورٹر عزیز میمن کی موت طبعی ہے۔
مقتول صحافی عزیز میمن کو گذشتہ سال بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کے دوران اس وقت شہرت ملی تھی جب انہوں نے ٹرین مارچ میں 200 روپے لے کر آنے والی خواتین کی اسٹوری کی تھی۔ خبر کے بعد مقتول صحافی عزیز میمن کو دھمکیاں مل رہی تھیں جس کا اظہار انہوں نے کئی بار کیا بھی تھا
یاد رہے کہ صحافی عزیر میمن کے قتل کے معاملے پر فواد چودھری نے کہا تھا کہ سندھ پولیس نے جس طرح اس قتل کو طبعی موت قرار دیا وہ قابل مذمت ہے، سندھ حکومت اپنی پوزیشن واضح کرے۔ وفاقی وزیر فواد سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ مقتول خود قاتل بتا کر گیا ہے، ایسے کیسے خاموش ہو جائیں، سندھ کے کرتا دھرتا اتنی آسانی سے اس قتل سے نہیں بچ سکتے، پہلے دن شیریں مزاری اور میں نے سپیکر قومی اسمبلی کو درخواست کی تھی کہ عزیز میمن کے قتل کی تفتیش وفاقی ایجنسی کو کرنی چاہیے۔ فواد چودھری نے کہا تھا کہ اس قتل کے پس منظر حقائق کی روشنی میں سندھ پولیس اس کی تفتیش کر ہی نہیں سکتی، آج سندھ پولیس نے جس طرح اس قتل کو طبعی موت قرار دیا وہ قابل مذمت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button