سپریم کورٹ کا فیصلہ بزدار کے خلاف چارج شیٹ قرار

سپریم کورٹ کی جانب وزیر اعلی پنجاب عثمان کو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر کی تقرری میں جانبداری برتنے کا مرتکب قرار دینے سے انکی ساکھ کے بحران میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومتی ناقدین سپریم کورٹ کے فیصلے کو عثمان بزدار کے خلاف ایک چارج شیٹ قرار دے رہے ہیں کیونکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر قرار دیا ہے کہ وائس چانسلر کی تقریری کرتے ہوئے عثمان بزدار نے غیر قانونی اور من پسندی پر مبنی فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ 16 اپریل 2019 میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر کا تقرر کرنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ‘پہلے سے طے شدہ ذہن’ کے ساتھ ایک فرد کو ’چُنا اور منتخب‘ کیا حالانکہ وہ کسی بھی صورت ’میرٹ پر پورا نہیں اترتا تھا‘۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے وائس چانسلر کے چناو کی بیان کردہ وجوہات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے طے شدہ ذہن کے ساتھ ایک ایسے شخص کو چن کر منتخب کر لیا تھا جو کہ میرٹ میں دیگر بہتر لوگوں کے مقابلے میں کمتر تھا‘۔ْ یہ عدالتی ریمارکس زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی صورت میں سامنے آئے۔
اس سے پہلے عثمان بزدار نے ڈاکٹر محمد اشرف کو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نئے وائس چانسلر کی حیثیت سے تعینات کردیا تھا۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے عثمان بزدار کے فیصلے کو میرٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر اقرار احمد خان کے بطور وائس چانسلر دوسری مرتبہ مدت ملازمت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا ہے۔
اس کیس کی سماعت 3 رکنی بینچ نے کی جس میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ بینچ نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا یہ اقدام غیر قانونی، صوابدیدی اور من پسندی پر مبنی ہے، اس رویے کا تدارک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرچ کمیٹی نے درخواست گزار ڈاکٹر اقرار خان کو میرٹ کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا تھا۔ عدالت نے کہا کہ ڈاکٹر اقرار نے نہ صرف تحریری امتحان بلکہ انٹرویو میں بھی سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے جبکہ ڈاکٹر اشرف کسی بھی معاملے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے تھے۔
چیف جسٹس کے جاری کردہ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اس طرح وائس چانسلر کی تقرری کے لیے وزیر اعلی کی جانب سے دی گئی وجوہات میں غیر جانبداری اور شفافیت کا فقدان ہے۔ وزیر اعلی نے ڈاکٹر اقرار کی تقرری کو مسترد کرنے کے لیے پیش کی جانے والی دوسری وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں مطلوبہ تعداد پوری کرنےسے قاصر رہے۔
تاہم عدالت عظمی نے ریمارکس دے کہ چونکہ اپیل کنندہ کو مخصوص تعداد پوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے اسے نااہل نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلی بزدار نے حقائق سے صرف نظر کیا اور عمومی نتائج پر بھروسہ کیا جو کہ قابل افسوس ہے۔

Back to top button