کیا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 10 لاکھ روپے ہو گئی؟

 سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 10 لاکھ روپےہونے کی افواہیں گرم ہیں۔26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور جسٹس یحی آفریدی کے نیا چیف جسٹس بن جانے کے بعد سے پاکستانی سوشل میڈیا پر کچھ ایسے بے بنیاد دعوے کیے جا رہے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں لیکن عمران خان کے حمایتی یوٹیوبرز ان جھوٹے دعووں کو مسلسل پھیلاتے چلے جا رہے ہیں۔

یوٹیوبر عمران ریاض خان اور کالم نویس ہارون الرشید کےدعوے

یوٹیوبر عمران ریاض خان اور کالم نویس ہارون الرشید سمیت کئی عمراندار لوگ یہ دعوی کر چکے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں سپریم کورٹ میں کسی بھی اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل غیرمصدقہ اطلاعات

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس غیرمصدقہ اور فیک اطلاع نے سینکڑوں صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی اور ہزاروں لوگوں نے اپنی آرا کا اظہار شروع کر دیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی فیس دس ہزار کے بجائے دس لاکھ کر دی گئی ہے۔ گویا اگر کسی بے گناہ کو ہائی کورٹ نے سزا سُنا دی اور اس کے پاس دس لاکھ نہیں ہیں تو وہ سپریم کورٹ میں اپیل ہی نہیں کر سکتا۔‘ ایک دوسرے صارف گویا ہوئے کہ ’دعا کریں اللہ تعالیٰ عدالتوں کا منھ ہی نہ دکھائے اور سپریم کورٹ تو صرف تصویروں میں ہی ٹھیک لگتی ہے۔‘

سپریم کورٹ میں فیس کے اضافے بارے ایکس پر صارفین کے دلچسپ تبصرے

ایکس پر ایک اور صارف نے لکھا کہ ’سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے پر اب 10 لاکھ روپے لگیں گے۔ یہ واہیات اور سڑا ہوا نظام تب تک نہیں بدلے گا جب تک قوم مزاحمت نہیں کرے گی۔‘ اگرچہ سوشل میڈیا پر بات نظام کے خلاف مزاحمت تک پہنچ چکی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ خیال رہے پاکستانی قانون کے مطابق ہائیکورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کی صحافیوں کے دعوؤں کی تردید

قانون اور سپریم کورٹ سے متعلق معاملات اور 26ویں آئینی ترمیم کو جاننے والے بہت سے صحافی اور صارفین اس نوعیت کے دعوؤں کی تردید کرتے اور دیگر صارفین کو سمجھاتے ہوئے نظر آئے۔ چوہدری شاہد محمود نامی صارف نے طنزیہ پوسٹ میں لکھا کہ ’کدی پڑھ وی لیا کرو۔‘ انھوں نے اسے ’انتہائی غیر ذمہ دارانہ خبر‘ قرار دیا۔

آئینی ترمیم میں 50ہزار اور 10لاکھ کا ذکر ضرور ہے

26ویں آئینی ترمیم کے دستاویزات میں ’پچاس ہزار‘ اور ’ایک ملین‘ یعنی دس لاکھ کا ذکر ضرور ہے لیکن اس کا تعلق سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل کی فیس سے بالکل نہیں۔ پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیے گئے دستاویزات میں آئین کے آرٹیکل 185 میں ترمیم کی بات کی گئی تھی اور لکھا گیا تھا کہ ’آرٹیکل 185 کے کلاز (2) کے پیراگراف (ڈی) میں ’پچاس ہزار‘ کے الفاظ کو ’ایک ملین‘ سے تبدیل کیا جائے گا۔‘

آرٹیکل 185کوآسان الفاظ میں سمجھا جا سکتا ہے

پاکستانی آئین کا آرٹیکل 185 سپریم کورٹ کی حدود کے حوالے سے ہے اور اوپر درج کی گئی منظور شدہ ترمیم کو اگر آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ عدالت عظمیٰ 10 لاکھ سے کم مالیت کے کسی بھی دعوے پر سماعت نہیں کرے گی۔

عدالت عظمیٰ میں اپیل کی فیس صرف5ہزارروپے ہے

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اپیل کے ساتھ جمع کروائی جانے والی فیس کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ اپیل یا پیٹیشن عدالت کی انتظامی برانچ میں دائر کرنے سے قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان میں پانچ ہزار روپے بطور فیس جمع کروانے ہوتے ہیں یعنی اپیل یا کیس دائر کرنے کی سرکاری فیس پانچ ہزار روپے ہے۔

رجسٹرار کے مطابق اس فیس کی رسید اپیل کے دستاویزات کے ساتھ سپریم کورٹ کی انتظامی برانچ میں جمع ہوتی ہے اور وہیں سے اپیل پر آگے کا عمل طے کیا جاتا ہے۔

Back to top button