شمالی علاقہ جات کی سیر کرنے والے کرونا سے کیسے بچیں؟

پاکستان بھر میں اس وقت سیاحت کا سیزن عروج پر پہنچ چکا ہے۔ سیاحت سے منسلک لوگوں کے مطابق اس وقت، عید کی چھٹیوں اور اس کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور پنجاب سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے شمالی علاقہ جات کے علاوہ سوات، چترال، دیر اور دیگر علاقوں میں سیر کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دونوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد ان علاقوں کا رخ کرے گی۔ اس وقت پاکستان کے زیر انتظام ازاد کشمیر میں کرونا کے بڑھتے متاثرین کے باعث سیاحت پر 19 سے 29 جولائی تک پابندی عائد ہے۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے محکمہ سیاحت کے مطابق فی الحال سیاحت پر کوئی بھی پابندی نہیں ہے تاہم انھوں نے کرونا کیسز کی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اور پابندی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ مرکزی سطح پر کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان اور صوبہ خِیبر پختونخواہ میں سیاحت پابندی عائد ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو آنے والے چند دونوں میں ہو گا مگر اس وقت گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے مطابق علاقے میں سیاحت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ محکمہ سیاحت خیبر پختونخواہ کے مطابق صوبے میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔
اب جانتے ہیں کہ کرونا کی چوتھی لہر اور سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر شمالی علاقہ جات جانے کا ارادہ رکھنے والے افراد کو کن اقدامات کو خصوصی طور پر مد نظر رکھنا چاہیے۔ گلگت کے محکمہ سیاحت و کلچر کے ڈائریکٹر جنرل محمد اقبال کے مطابق انسانی جان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ حکومت گلگت بلتستان نے سیاحوں کے لیے بین الاقوامی معیار کے ایس او پیز ترتیب دیے ہیں جن پر سختی سے عمل در آمد کروایا جا رہا ہے۔ ان ایس او پیز پر پابندی سیاحوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے بھی لازمی ہیں۔اقبال کا کہنا تھا گلگت بلتستان کے تمام داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں جہاں پر موجود قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ہمراہ محکمہ صحت کے اہلکار بھی موجود ہوں گے۔ سیاحوں کے لیے لازمی ہو گا وہ گلگت بلتستان کی حدود میں داخلے پر کورونا ویکسین کا سرٹیفیکٹ پیش کریں۔ اگر سیاحوں کے پاس سرٹیفیکٹ نہیں ہے اور انھوں نے ویکسین لگوائی ہے تو وہ اپنے موبائل، لیپ ٹاپ کے ذریعے سے بھی اپنے شناختی کارڈ نمبر سے تصدیق کروا سکتے ہیں۔
اگر سیاحوں نے ویکسین نہیں لگوائی تو پھر انھیں موقع پر ویکسین لگوائی جائے گئی۔ اگر کوئی سیاح ویکسین لگوانے سے انکار کرے گا تو اسے گلگت میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گئی۔
جہاں تک خیبر پختونخواہ کا تعلق ہے تو وہاں جولائی میں کرونا کیسز کی تعداد 1525 تک پہنچ گئی ہے۔ اس تعداد کو گذشتہ تین ماہ کے مقابلے میں اضافے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ محکمہ سیاحت و کلچر کے مطابق بھی سیاحوں کے لیے کورونا ویکسین کا سرٹیفیکٹ اپنے پاس رکھنا لازم ہو گا۔ ڈائریکٹر جنرل محمد علی سعید کے مطابق پورے صوبے میں سیاحت کی صنعت سے جڑے لوگوں کی تربیت مکمل ہے۔ اس صنعت سے جڑے لوگوں اور اس میں کام کرنے والوں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ خود بھی ایس او پیز کی مکمل پابندی کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صنعت سے جڑے لوگوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھنے لیے ہر ایک سٹاف ممبر کی ویکسینیشن کروائیں گے۔ ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گئی۔محمد علی سعید کے مطابق تمام ہوٹلوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاح کو ویکسینیشن سرٹیفیکٹ پیش کیے بغیر رہائش کی سہولت نہیں دیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ اس وقت گلگت بلتستان کے اندر صورتحال یہ ہے کہ تمام ہوٹل مکمل طور پر بک ہیں۔ ایسی ہی اطلاعات وادی کاغان سے بھی موصول ہو رہی ہیں۔ سیاح اگر شمالی علاقہ جات کی طرف آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں تو وہ کورونا ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ سب سے پہلا کام ہوٹل میں اپنے کمرے کی بکنک کا کریں۔ بغیر بکنگ کے کسی بھی صورت میں سفر نہ کریں۔ اس سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقبال کا کہنا تھا کہ بابو سر ٹاپ کے راستے سے سفر کرنے والے خیال رکھیں کہ وہ روڈ شام چھ بجے کے قریب بند ہو جاتی ہے۔ اپنا سفری پلان اس طرح ترتیب دیں کہ وہ اس سے پہلے پہلے بابو سر ٹاپ سے گزر جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سفر کرنے والے سیاح اپنی گاڑیوں پر سفر کر رہے ہیں یا وہ کمرشل گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ بابو سر ٹاپ روڈ کو کراس کرتے ہوئے یعنی آتے اور جاتے ہوئے بہت احتیاط سے ڈرائیونگ کریں۔ اس دوران اس روڈ پر بریک کا استعمال کم سے کم رکھیں اور یقینی بنائیں کہ گاڑی ہیوی گیئر میں ہو۔ اس مقام پر بے احتیاطی کے علاوہ نئے ڈرائیور حادثے کا سبب بن جاتے ہیں۔
اقبال کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاحوں کو گلگت شہر اور ہنزہ کریم آباد میں کچھ ٹریفک بلاک کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاح رش کے اوقات سے بچنے کے لیے صبح اور شام کے بجائے دوپہر کے اوقات میں سفر کریں۔ اس طرح قراقرم ہائی وے انتہائی محفوظ ہے مگر رات دیر تک وقت سفر کرنے سے اجتناب کریں۔ انکا کہنا تھا کہ قراقرم ہائی وے پر عام آٹومیٹک یا کوئی بھی گاڑی آرام سے سفر کر سکتی ہے۔ مگر اس وقت فور بائے فور جیپ کی ضرورت پڑتی ہے جب مختلف وادیوں میں جانا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ وای نلتر جاتے ہیں تو اس کے لیے گلگت سے جیپ کی ضرورت پڑے گئی۔ اسی طرح خنجراب پاس جانا ہے تو وہاں کے لیے بھی فور بائے فور گاڑی کی ضرورت ہے۔ اس کا انتظام بھی پہلے سے کرلیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیاح اپنے پاس موسم کی مناسبت سے کپڑے ضرور رکھیں۔ اب خنجراب پاس جانے والوں کو گرم کپڑوں کی لازمی ضرورت ہو گئی۔ اس طرح وادی کاغان میں رکھنے والے بھی خیال رکھیں کہ ناران اور دیگر وادیوں میں بھی شام کے وقت گرم کپڑوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اقبال کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں تو مون سون کا اتنا فرق نہیں پڑتا ہے مگر وادی کاغان اور ضلع کوھستان وغیرہ میں اس کے اثرات ضرورت ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کی جانب آنے والے سیاح آنے سے قبل موسمی صورتحال اور موسم کے حوالے سے کی جانے والی پیش گوئیاں جان کر اس حساب سے سفری پلان بنائیں۔
اسی طرح محمد علی سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت خیبر پختونخوا کے تمام سیاحتی مقامات پر مقامی انتظامیہ فعال ہیں۔ مون سون شروع ہو چکا ہے اور بارشوں کی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ ان علاقوں کی طرف سفر کرنے والے اپنے ہمراہ مناسب گاڑیاں رکھنے کے علاوہ انتظامیہ کے ایمرجنسی نمبر پاس رکھیں تاکہ کسی بھی مشکل کی ضرورت میں کو ان مدد فراہم کی جا سکے۔
اس وقت گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ جس میں شاہراہ قراقرم کو بھی بلاک کیا جا رہا ہے۔ اس دوران بھی سیاحوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس کے لیے سیاح مقامی انتظامیہ، میڈیا یا مقامی لوگوں سے اطلاعات حاصل کر کے سفر کریں۔