شہباز حکومت کیلئے فوری آئینی ترمیم منظور کروانا ناممکن کیوں؟

اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی فضاؤں میں آئینی ترمیم کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ تاہم حکومت کو کوئی بھی آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت دکھانا ضروری ہے جو سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد ختم ہو چکی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلے کاؤنٹر کرنے کے لیے سادہ اکثریت کے ساتھ  ایک ترمیم تو پاس کروا لی تھی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابھی تک مخصوص نشستوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کے اراکین کا دوبارہ نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں ہی عدالت میں چیلنج ہو چکے ہیں لہذا وہ نوٹی فکیشن جاری نہیں کر سکتا۔

دوسری جانب اگر نمبرز گیم پر غور کیا جائے تو اس وقت حکومتی اتحاد کو کوئی بھی آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بالترتیب 13 اور 9 ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ملاقاتوں کا بنیادی مقصد بھی انکی حمایت لیکر پارلیمنٹ میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنا تھا۔ یاد رہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو پاس کروانے کے لیے سینیٹ اور  قومی اسمبلی دونوں میں علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت  درکار ہوتی ہے۔ یعنی آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ووٹ درکار ہیں۔ اس وقت قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان موجود ہیں جب کہ اپوزیشن کے 101 ارکان ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت کوئی آئینی ترمیم  پاس کروانا چاہے تو اسے قومی اسمبلی میں مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔

کیاآئینی عدالت کے قیام کیلئے اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے گی؟

اس وقت قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ن کے 110 ووٹ ہیں، پیپلز پارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق دونوں کے پاس چار چار ووٹ ہیں، اسکے علاوہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80 ووٹ ہیں، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد  ارکان اسمبلی ہیں، جمیعت علمائے اسلام  کے 8، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور   پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ قاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے ہیں۔

دوسری جانب سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پیپلزپارٹی کے 24 ووٹ ہیں، اسکے علاوہ مسلم لیگ نواز کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان موجود ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز موجود ہیں جب کہ 2 انڈیپنڈنٹ اراکین موجود ہیں۔ یوں ایوان بالا میں حکومتی اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 54  بنتی ہے، ایسے میں آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے حکومت کو سینیٹ میں مزید 9 ووٹ درکار  ہیں۔ سینیٹ میں اپوزیشن بنچز  پر  پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک رکن ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزادق سینیٹر بھی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز  موجود ہیں۔

اگر نمبرز گیم کی بات کی جائے تو حکومت دو تہائی اکثریت سے کچھ ہی دور ہے اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات جاری ہیں، بتایا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنی سپورٹ کے بدلے میں حکومتی اتحاد سے خیبر پختون خواہ کی گورنرشپ کے علاوہ تین وفاقی وزارتوں کا مطالبہ کر دیا ہے، حکومت جے یو آئی ایف کے ساتھ روابط بڑھا کر آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود اس کے 8 ووٹ جیتنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ جے یو آئی ایف کے 8 اراکین مل جانے کی صورت میں حکومتی اتحاد کو 220 اراکین کی حمایت ہو جائے گی جبکہ باقی چار مطلوبہ ووٹ آزاد اراکین کے لیے جا سکتے ہیں، اسی طرح سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکومتی اتحاد کو پھر جے یو آئی کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے، جس کے پانچ اراکین کی حمایت ملنے کی بعد اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے۔

Back to top button