شہباز شریف کی ضمانت کا فیصلہ متنازعہ ہو گیا


پاکستان عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سنیئر سیاستدان کی ضمانت کا فیصلہ آنے کے بعد تنازع کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے اسے ریفری جج کے پاس بھیجا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے شہباز شریف کی ضمانت کے معاملے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف کی بو آتی ہے۔
عدالت عالیہ کے فیصلے کو تین روز گزرنے کے باوجود شہباز شریف کی ضمانت کنفرم نہ ہونے پر سیاسی حلقے  خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ ممکنہ طور پر جسٹس اسجد جاوید گھرال پر حکومت کی جانب سے دبائو آیا ہے جس کے باعث اب وہ ضمانت کے فیصلے پر دستخط کرنے سے انکاری ہو گے ہیں۔ واضح رہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت پسندی کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان انہیں اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ گذشتہ اڑھائی برسوں نے کپتان نے مزاحمت کی سیاست کرنے والے لیگی رہنمائوں کی بجائے مفاہمت پسندں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ شہباز شریف کو ایک نہیں بلکہ دو بار نیب کے ذریعے گرفتار کرکے طویل عرصے تک سیاسی منظر نامے سے غائب کیا گیا۔ اسی طرح حمزہ شہباز کو بھی بیس ماہ تک پابند سلاسل رکھا گیا جبکہ اسی دھڑے سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد آصف کو بھی نیب تاحال چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔  بعض سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ملکی سیاست میں تبدیلی لانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کے مفاہمتی دھڑے کو ریلیف دینا چاہتی ہے مگر کپتان اینڈ کمپنی اسے اپنے خلاف ایک سازش سمجھتے ہوئے انہیں دیوار سے لگانے کے لئے کوشاں ہے۔ 
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں عجب واقعہ رونما ہوا ہے کہ تین دن بعد گزرنے بعد بھی شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر تحریری فیصلہ ابھی جاری نہیں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈویژن بینچ میں شامل ایک جج نے ضمانت کے فیصلے پر اپنےسائن نہیں کئے اور موقف اختیار کیا کہ انہوں نے فیصلہ ضمانت کے حق میں  نہیں دیا تھا۔ لہذا اب تین دن بعد یہ معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھیجا گیا ہے جو عدالتی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اس فیصلے کو ٹائی ہونے کی وجہ سے ریفری جج کے پاس بھیجیں گے جو اب ضمانت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔
یوں اب شہباز شریف کی رہائی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹرار آفس کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر نے ضمانت منظوری کا مختصر فیصلہ لکھ کر جسٹس اسجد جاوید گھرال کو بھجوایا تھا لیکن انہوں نے فیصلے پر دستخط نہیں کیے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت پر طویل سماعت کی تھی۔ 14 اپریل کو عدالت نے پچاس پچاس لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض شہباز شریف کی رہائی کا حکم دیا تھا۔جسٹس اسجد جاوید گھرال نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان کو آگاہ کردیا ہے جس کے بعد اب بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال اپنا اپنا الگ الگ فیصلہ لکھ کر چیف جسٹس کو بھیجیں گے اور چیف جسٹس اس کے بعد شہباز شریف ضمانت کیس کو ریفری جج کے پاس ارسال کریں گے۔
واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت پر طویل سماعت کی۔13 اپریل کو شہباز شریف کے وکلا اور اگلے روز نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ دونوں جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔  تقریباً 20  منٹ کے بعد کورٹ ایسوسی ایٹ کمرہ عدالت میں آئے اور انہوں نے اونچی آواز میں کہاکہ شہباز شریف کی ضمانت سے متعلق درخواست منظور کرلی گئی ہے لہذا ان کی رہائی کے لئے 50,50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائے جائیں۔ یہ اعلان سنتے ہی کمرہ عدالت میں موجود لیگی رہنما رانا ثنا اللہ،مریم اورنگزیب اور دیگر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خوشی کا اظہار بھی کیا۔
 ذرائع کے مطابق جب جسٹس سرفراز ڈوگر نے ضمانت منظوری کا مختصر فیصلہ لکھ کر جسٹس اسجد جاوید گھرال کے پاس بھجوایا تو انہوں نے دستخط نہیں کیے جس کے بعد جمعرات کو جسٹس اسجد جاوید گھرال ہائیکورٹ آئے اور بطور سنگل بینچ کیسز کی سماعت کی لیکن ڈویژن بینچ میں نہیں گئے جس کی وجہ سے کاز لسٹ منسوخ کردی گئی ۔ ذرائع کے مطابق جسٹس اسجد جاوید گھرال نے جسٹس سرفراز ڈوگر کی جانب سے شہباز شریف کو ضمانت پر رہا کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان کو آگاہ کردیا ہے۔ عدالتی قواعد کی رو سے اب ڈویژن بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور ان کے ساتھی جسٹس اسجد جاوید گھرال اپنا اپنا الگ الگ فیصلہ لکھ کر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھیجیں گے جو اس کے بعد شہباز شریف ضمانت کیس کو ریفری جج کو ارسال کریں گے۔ یعنی اب ریفری جج شہباز شریف کی ضمانت کیس کا فیصلہ سنائے گا ۔ دوسری جانب اس تنازعے کے بعد چیف جسٹس قاسم خان نے نیب کیسز کی سماعت کرنیوالے بینچ کو تحلیل کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دیدیا ۔جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس فاروق حیدر آئندہ ہفتے نیب کیسز کی سماعت کریں گے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ملتان اور جسٹس اسجد جاوید گھرال کو بہالپور بینچ بھجوادیا گیا۔
یاد رہے کہ نیب لاہور نے شہباز شریف اور ان کی فیملی کے دیگر ارکان سمیت کل 16 افراد کے خلاف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں شواہد پر مشتمل تاریخی طویل ترین ریفرنس تیار کیا ہے جو 58 والیمز پر مشتمل جبکہ تمام ملزمان کو فراہم صفحات کی تعداد 5 لاکھ سے زائد ہے۔ نیب حکام کے مطابق ریفرنس میں شہباز شریف اور اہل خانہ کیجانب سے منی لانڈرنگ کے مکمل طریقہ کار کو ایکسپوز کیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ کیلئے سلمان شہباز اور انکے پھیلائے گئے نیٹ ورک کی مکمل تفیصلات والیمز کی صورت میں ظاہر کی گئی ہیں۔ نیب  ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کے بے نامی اثاثہ جات کی مالیت 7 ارب سے زائد پائی گئی۔ متعدد بے نامی کمپنیاں، کروڑوں روپے کے شیئرز اور بے شمار بینک اکاؤنٹس میں شہباز شریف کی اربوں کی ملکیت ثابت ہوئی ہے۔ نیب نے اس کیس میں 4 افردا کو وعدہ معاف گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button