شہباز کس کے ایما پر بیک چینل ڈپلومیسی کر رہے ہیں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سمجھ لینے کے بعد کہ فوج سے لڑائی کر کے دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہے، نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو بیک چینل ڈپلومیسی کی اجازت دے دی ہے اور انہیں اسی خاص مقصد کے لیے نیب کی قید سے رہائی دلوائی گئی ہے۔
بظاہر تو نواز لیگ کے مزاحمتی اور مفاہمتی دھڑوں کے مابین محاذ آرائی عروج پر ہے لیکن بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سب چائے کی پیالی میں طوفان سے ذیادہ کچھ نہیں ہے، انکا کہنا ہے کہ نون لیگ میں صعف ایک ہی گروپ ہے اور وہ ہے نواز شریف کا، اور جب وہ بڑھک ماریں گے تو شہباز شریف جیسے شیر پل بھر میں بکری ہو جائیں گے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ شہباز شریف بارہا واضح کر چکے ہیں کہ میں اکنے بڑے بھائی کے تابع ہوں، اور ان کے حکم اور رہنمائی کے مطابق ہی آگے چلتا ہوں لیکن بھائی جان مست ہیں اور لندن کی کافی شاپس میں بیٹھے مٹی کے مادھو بنے بیٹھے ہیں۔ عارف کہتے ہیں کہ نواز شریف اپنے پتے سینے سے لگا کر بیٹھے ہیں لیکن اس طرز کی سیاست سے پارٹی کو کتنا فائدہ پہنچا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ دراصل میاں صاحب اپنے آپشنز کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پارٹی رہنماؤں کا مورال متاثر ہو رہا ہے، شہباز شریف جو پارٹی کے صدر ہونے کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں پوری طرح موثر کردار ادا نہیں کر پا رہے۔
عارف نظامی کے مطابق اس کا ایک مطلب تو یہ لیا جا رہا ہے کہ نواز شریف اپنی صاحبزادی کا سیاسی قد کاٹھ کم نہیں کرنا چاہ رہے لیکن اس کا ایک گہرا اور دوررس مطلب اور بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ میاں صاحب فوج کے حوالے سے اپنی ترجیحات کھلی رکھنا چاہتے ہیں۔ عارف کے خیال میں با امر مجبوری نواز شریف کو شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ ماننا پڑا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ شہباز اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے مسلسل پابند سلاسل ہونے اور خود نواز شریف اور ان کی فیملی کی لمبے عرصے تک بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کی بنا پر پارٹی شتر بے مہار ہوتی جا رہی تھی۔ اس صورتحال میں لڑائی کر کے اقتدار میں واپس آنا ممکن نظر نہیں رہا اور کوئی بیک چینل کھولنا ضروری تھا، لہازا اس کام کے لیے شہباز شریف کو فعال کرنا ضروری تھا تاکہ وہ جیل سے باہر آئیں اور اپنا رول ادا کریں۔
عارف نظامی کے خیال میں نواز شریف کی سوچ میں حالیہ تبدیلی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ مسلم لیگ کو خود ہی یہ احساس ہو جائے کہ پنجاب میں اس کی عمومی مقبولیت خاصی حد تک برقرار ہے جس کا بین ثبوت صوبے میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں پارٹی کو بھرپور کامیابی ملی اور حکمران جماعت تحریک انصاف کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرا یہ کہ اس ماحول میں پارٹی کے اندر خلفشار نقصان دہ ثابت ہو رہا تھا بالخصوص شاہد خاقان عباسی کے بطور سیکرٹری جنرل پی ڈی ایم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرنا خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ عارف نظامی کے مطابق اس تمام معاملے میں مریم بی بی کا رول حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ اپنے چچا کی لیڈرشپ کو قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں، حتٰی کہ ان کی صدارت میں کسی اجلاس یا تقریب میں شرکت کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ وہ عباسی صاحب کی غلط حمایت کر رہی ہیں۔ میاں صاحب بھی نظریاتی طور پر اپنے برادر خورد کی لائن سے پوری طرح متفق نہ ہونے کے باوجود معروضی حالات دیکھتے ہوئے انہیں آشیرباد دینے پر مجبور ہیں۔ عارف کہتے ہیں کہ اب میاں نواز شریف بھی تماشا دیکھنے کے بجائے فیصلہ کن کردار ادا کریں، انہیں اپنے پارٹی صدر کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے اور پارٹی کی باغی لیڈرشپ بالخصوص صاحبزادی کو سمجھانا چاہیے۔