صحافیوں پر حملے کرنے والوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان میں ریاست کی جانب سے کھینچی گئی نام نہاد ریڈ لائن عبور کرنے والے صحافیوں کو لگام ڈالنے اور نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ دھایئوں سے جاری و ساری ہے لیکن دوسروں کے لیے ریڈ لائن متعین کرنے والے یہ بے لگام طاقتور ادارے خود کسی آئینی و قانونی ریڈ لائن کو نہیں مانتے جو کہ آج ملک کے تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔
چند روز پہلے اسلام آباد میں سینئر صحافی ابصار عالم نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے تاہم زندہ بچ گئے۔ اس سے قبل سینئر صحافی حامد میر کراچی میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے اور چھ گولیاں لگنے کے باوجود معجزاتی طور پر ان کی جان بچ گئی تھی، اس سے پہلے احمد نورانی، عمر چیمہ اور مطیع اللہ جان سمیت کئی قلم کار اور صحافی بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہو چکے ہیں۔ مذکورہ صحافیوں اور قلمکاروں کے ہم خیال افراد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کی جانب سے کھینچی گئی ریڈ لائن یعنی سرخ لکیر عبور کرتے ہیں اس لیے انکو لگام ڈالنا ضروری یے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ریاست کی جانب سے کھینچی گئی سرخ لکیر عبور کرنے کا مطلب ملک سے غداری، ملک دشمنی یا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا لیا جاتا ہے، لیکن حیرت انگیز بات طور پر مذکورہ سرخ لکیر لگانے والے اس کے خالق از خود ریڈ لائن عبور کرنے کی پابندی سے ہمیشہ مبرا رہے ہیں، وگرنہ ملک میں نہ تو بار بار مارشل لاء لگتے اور نہ ہی ایمرجنسی لگتی، نہ تو بار بار آئین معطل ہوتا اور نہ ہی عوام کے منتخب وزرائے اعظم کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جاتا، جلا وطن کر دیا جاتا اور پھانسی دی جاتی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوسروں کو لگام ڈالنے اور ان کے لیے ریڈ لائن متعین کرنے والے اگر خود سرخ لکیر عبور نہ کرتے تو نہ ہی تحریکِ طالبان، تحریکِ لبیک اور لشکرِ طیبہ جیسی شدت پسند تنظیمیں بنائی جاتیں اور نہ ہی بعد میں ان کو فسادی اور دہشت گرد قرار دے کر پابندیاں لگانے کی نوبت آتی۔
ناقدین کہتے ہیں کہ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ جب میڈیا سے تعلق رکھنے والا پروفیشنل اور باضمیر صحافی ریاستی اداروں کے فوجی سربراہان کو ملکی آئین اور قانون کے مطابق چلنے اور اپنے دائرہ کار میں رہنے کا کہتے ہیں تو ان پر ریاست کی جانب سے کھینچی گئی”ریڈ لائن“ کراس کرنے کا الزام لگا دیا جاتا یے۔ اگر کوئی سیاستدان یا صحافی ملک میں جمہوریت، آئین اور سویلین بالادستی کی بات کرے تو وہ بھی ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے غداری کا مرتکب قرار دے دیا جاتا یے۔ اگر آپ اپنے ہی ملک میں لاپتہ کیئے گئے افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور الیکشن میں فوج کی کھلم کھلا مداخلت کی بات کریں گے تو سمجھیں آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ اگر آپ جمہوریت سے متعلق قائدِ اعظم کے اقوال کو نمایاں اور بانیِ پاکستان کے آخری ایام اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ روا رکھے گئے ریاستی سلوک سے متعلق لب کشائی کریں گے تو بھی یقینا آپ سرخ لکیر عبور کر رہے ہیں اور دشمن کا ایجنٹ قرسر۔پائیں گے۔ اگر آپ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں سقوطِ ڈھاکہ کی وجہ بننے والے واقعات قوم کو بتائیں گے اور ملک کا آئین بار بار توڑ کر مارشل لاء لگانے والے آمروں پر تنقید کریں گے تو بھی آپ سرخ لکیر کراس کرنے اور ملک دشمنی کرنے کے مرتکب قرار پایئں گے۔ یہی نہیں بلکہ اگر آپ سہیل وڑائچ کی متنازعہ کتاب ”یہ کمپنی اب نہیں چلے گی“ اور اسد درانی کی کتاب ”The Spy Chronicles “ اور Honour Among Spies کا حوالہ دے کر کوئی سوال کریں گے تو بھی آپ سیدھے سیدھے ریاست کی سرخ لکیر عبور کر رہے ہوں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ آج کے عسکری پاکستان میں اگر آپ جنرل ریٹائرڈ عاصم باوجوہ کے پاپا جونز پیزا اسکینڈل سے متعلق سوال اٹھائیں گے تو جان لیں آپ ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ اگر آپ ڈیم فنڈ کے نام پر عوام کی جانب سے بطور چندہ دیئے گئے بارہ ارب روپے کا حساب مانگیں اور پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے پاک بھارت خفیہ مذاکرات سے متعلق تشویش کا اظہار کریں گے تو بھی آپ سرخ لکیر عبو کر رہے ہیں۔ اگر ممبرانِ پارلیمنٹ دفاعی بجٹ سے متعلق خرچ کی تفصیلات جاننا چاہیں تو اسے بھی ریڈ لائن عبور کرنا سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نیشنل اور سوشل میڈیا پر لگائی گئی حکومتی پابندیوں اور حالیہ سائبر کرائم ایکٹ پر تنقید کریں گے اور آئی ایم ایف کے ملازم کو گورنر اسٹیٹ بینک لگانے اور ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے پر اپنی تشویش ظاہر کریں گے تو بھی آپ ریاست کی لگائی گئی ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر آپ روس اور امریکہ کی لڑائی یعنی سرد جنگ اور پھر نائن الیون کے فوری بعد افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کے بے دردی سے استعمال ہونے اپنی تشویش کا اظہار کریں گے اور اس ضمن میں ملنے والی اربوں ڈالرز کی امریکی نقد امداد کا حساب مانگیں گے تو بھی ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ اگر آپ کارگل جنگ اور سابق آمر پرویز مشرف کے حکم پر اکبر بگٹی کو شہید کرنے، ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس اور لال مسجد آپریشن پر سوال اٹھائیں گے تو سمجھیں آپ نے ریاست کی سرخ لکیر عبور کی ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ اگر آپ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کی مخالفت کرتے ہیں تو بھی آپ ریاست دشمن قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کریں گے تو آپ پر فوج کو بدنام کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے حالانکہ اصل میں اس اہم ترین قومی ادارے کی بدنامی تب ہوتی ہے جب کوئی آرمی چیف ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے آئین توڑ کر ملک کا صدر بن جاتا ہے۔ آج کے پاکستان میں اگر کوئی جج آئین شکنی پر مشرف کو چوک میں پھانسی دینے کا فیصلہ جاری کرتا ہے تو اسے بھی ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔
اگر اسی مشرف کو دبئی سے پاکستان واپس لا کر قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ بھی سرخ لکیر عبور کرنے کے زمرے میں آتا یے۔ جب آپ ریاستی اثاثہ جات یعنی اچھے والے طالبان، حافظ سعید، لشکرِ طیبہ، جماعت الدعوہ، سپاہِ صحابہ اور تحریکِ لبیک وغیرہ پر پابندیاں لگانے سے متعلق پوچھیں گے تو آپ اصل میں ریڈ لائن کراس کر رہے ہوں گے۔ اگر آپ ٹی ایل پی کے کارکنوں میں فیض آباد دھرنے کے بعد ”انعامی رقم“ تقسیم کرنے پر سوال اٹھائیں گے تو بھی یقینا آپ سرخ لکیر عبور کریں گے جس کی کڑی سزا دی جاتی ہے۔
اگر 2018 کے الیکشن میں تاریخی دھاندلی اور آ ر ٹی ایس کی اچانک خرابی سے متعلق سوال اٹھائیں گے تو گویا آپ نے ریڈ لائن عبور کی۔اگر آپ تین سالوں میں ملک کی تباہ شدہ معیشت سے متعلق سوال اٹھائیں گے تو بھی آپ ریڈ لائن کراس کرنے کے مرتکب ٹھہرائے جائیں گے۔ لیکن اس سب کے باوجود ان طاقتور بندوق والوں کے لیے جناح کے پاکستان میں کوئی ریڈ لائن نہیں ہے جو ہر چند برس بعد منہ اٹھا کر اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر آئین پامال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔