صحافیوں کو غدار بنانے والے خفیہ بلاگرز بے نقاب

حال ہی میں فیس بک انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کا مخصوص ایجنڈا لے کر چلنے والے 100 مشکوک اکاؤنٹس منسوخ کیے جانے کے بعد اب یو ٹیوب پر اسٹیبلشمنٹ مخالف پاکستانی صحافیوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پروپیگنڈا کے پیچھے بھی ایجنسیوں کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستانی سوشل میڈیا پر چند یوٹیوب ولاگرز نے اسٹیبلشمینٹ کے سیاسی کردار پر تنقید کرنے والے چند نامور صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعوے کیے کہ انکا جھکاؤ پڑوسی ملک انڈیا کی جانب ہے اور یہ کہ جن ویب سائٹس پر یہ صحافی پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے متعلق رائے دیتے ہیں وہ انڈیا سے چلائی جاتی ہیں۔ ان دعوؤں کا انحصار ایسے شواہد پر کیا گیا ہے جس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان ویب سائٹس کی ہوسٹنگ یا ان کے سرورز انڈیا میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخدوم شہاب الدین نامی اسٹیبلشمنٹ نواز ولاگر نے اپنی ویڈیو میں یہ بھونڈا دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے نام پر انڈیا کے نیٹ ورکس چلائے جا رہے ہیں۔ اس غیر معروف ولاگر نے پاکستان میں آزادی صحافت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو انڈیا میں موجود سرور سے منسلک ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ حافظ شبیر کا فیس بک پیج انڈیا سے چلائے جانے کا دعوی کرنے کے علاوہ اس شخص نے خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ فریڈم نیٹ ورک کی جس ویب سائٹ پر وہ پاکستان کے میڈیا پر پابندیوں کے متعلق لکھتی ہیں وہ ویب سائٹ بھی انڈیا سے چلائی جا رہی ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اب شہاب الدین کے ناقدین بھی ان کی ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو انڈیا میں موجود ایک سرور سے منسلک ہونے کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بی بی سی نے اس ضمن میں آئی ٹی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کسی بھی ویب سائٹ کا ڈی این ایس ہوتا کیا ہے، اس کی کسی ویب سائٹ کے لیے اہمیت کیا ہے اور کیا اس کا کس دوسرے ملک میں موجود سرور سے منسلک ہونا اس کی طرف جھکاؤ کی ترجمانی کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈومین نیم سسٹم یعنی ڈی این ایس کیا ہوتا ہے؟پاکستان کی سافٹ ویر انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم پاشا کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور آٹی ٹی ماہر بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ آسان الفاظ میں یہ کسی عام ویب سائٹ کے آسان ایڈریس کی میپنگ سروس ہے یعنی یہ ایڈریس ڈیجیٹل دنیا میں ویب سائٹ کو اس کے ڈیٹا سرور کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں یہ فرنٹ اینڈ سرور نہیں ہوتا اور یہ عام صارف کو نظر نہیں آتا جس کا مطلب کا ہے کہ ایک عام صارف کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کی ویب سائٹ کا ڈیٹا سرور کہاں ہے اور اس کو منسلک کرنے والا ڈیجیٹل ایڈریس یعنی ڈی این ایس کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب کلاؤڈ ٹیکنالوجی میں تو ایک ڈیٹا کمپنیز کے سرور دنیا کے مخلتف ممالک میں ہوتے ہیں تاکہ صارف جہاں سے بھی اپنی مطلوبہ ویب سائٹ کھولے تو اس کے سامنے وہ فوری طور پر لوڈ ہو سکے۔ اس کو آٹو ڈیجٹیل رؤٹنگ کہا جاتا ہے اور ایک ڈی این ایس کسی بھی کم لوڈ والے ڈیٹا سرور سے منسلک ہو کر مطلوبہ ویب سائٹ کو کھول دیتا ہے۔ عام الفاظ میں یہ کسی بھی ویب سائٹ کے لیے ایک پی او باکس نمبر کا کردار ادا کرتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم بائٹس فار آل کے شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کا نظام جتنا سادہ ہے اتنا ہی پیچیدہ بھی ہے۔ دنیا میں انٹرنیٹ کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے مختلف بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں کام کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں عالمی سطح پر ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو رجسٹر کرنے کے حوالے سے ایک ادارے انٹرنیٹ کنسورشیم آف نیمز اینڈ نمبرز یعنی آئی کین کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر کام کرتا ہے اور پاکستان بھی اس کا رکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کے ٹیکنیکل ضوابط یہ ادارہ طے اور لاگو کرتا ہے۔ ان کے تحت مخلتف ویب سائٹ ہوسٹنگ سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ ڈی این ایس اس ڈیٹا سرور سے منسلک کرنے کے لیے ایک ایڈریس ہوتا ہے جہاں آپ کی ویب سائٹ کا ڈیٹا رکھا جاتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا معلومات کا عملی مشاہدے کیا جائے تو پاکستان کے بیشتر میڈیا اداروں کی ویب سائٹس کے ڈی این ایس بھی امریکا میں موجود ایک ڈیٹا سرور سے منسلک ظاہر ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ڈی این ایس کا دوسرے ملک کے ڈیٹا سرور سے منسلک ہونا سیاسی جھکاؤ کی ترجمانی کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ اس کا بہت کم امکان ہے۔ کسی ویب سائٹ کے ڈی این ایس ایڈریس کا کسی دوسرے ملک کے ڈیٹا سرور سے منسلک ہونا کسی بھی قسم کی سیاسی جھکاؤ کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کے ڈیٹا سرور دنیا کے مخلتف ممالک میں موجود ہیں۔ جیسا کے ڈیجیٹل اوشن ڈیٹا سرور کمپنی ایک امریکن کمپنی ہے اور اس کا صدر دفتر نیویارک میں ہے۔ یہ دنیا میں کلاؤڈ سروس فراہم کرتے ہیں اور ان کے ڈیٹا سرور دنیا میں بہت سے ممالک میں ہیں۔ بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں تیزی سے ترقی آنے کے بعد اب دنیا بھر میں ایمازون، مائیکروسافٹ سمیت دنیا کی بڑی کمپنیاں اب نیٹ ورک اوپٹیمائزیشن کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں۔
یعنی اب یہ کمپنیاں یہ جانچتی ہیں کہ کسی ویب سائٹ کی ٹریفک کہاں سے زیادہ آ رہی ہے اس کے حساب سے وہ ویب سائٹ کی لوکیشن اور ڈی این ایس کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں اور اس خطے میں قریب ترین موجود ڈیٹا سرور سے منسلک کرتے ہیں تاکہ کسی بھی صارف کے موبائل یا کمپیوٹر پر مطلوبہ ویب سائٹ جلد از جلد کھل جائے۔ لہذا اس ٹیکنالوجی کے طریقہ کار میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آپ کسی بھی ویب سائٹ کے ڈیٹا سرور کے ساتھ منسلک ہونے کو کسی خاص ملک کی طرف جھکاؤ کا تعلق قائم کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام صارف کو ڈی این ایس کو ڈیٹا سرور سے منسلک کرنے کی سیٹنگز کا علم نہیں ہوتا یہ یہ ویب سائٹ ہوسٹنگ فراہم کرنے والی کمپنیاں کرتی ہیں۔
دوسری جانب شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر کسی ویب سائٹ کے ڈی این ایس ایڈریس کو لے کر جو باتیں سامنے آئی ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔
’جس طرح سے انھیں ایک انویسٹیگیٹو جرنلزم کا نام دیا جا رہا ہے اس کو پڑھ کر صرف ہنسی آتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جس طریقے سے حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے خلاف سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ سوشل میڈیا ہر بنا کسی وجہ کے اشتعال پھیلایا جا رہا ہے، باعزت لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور انھیں گالی گلوچ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’سادہ عوام تو یہ بات سمجھتے نہیں اور یہ بہت خوفناک ہے، کیونکہ انٹرنیٹ اس طریقے سے نہیں چلتا جیسے دعوے کیے جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے ڈیجیٹل اوشن کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا ڈیٹا سرور انڈیا سے چلتا ہے اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف انڈین کمپنی ہے، اس کے دنیا بھر میں کئی ڈیٹا سرورز موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ڈیٹا سرور تک دنیا میں کہیں سے بھی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کا کسی سیاسی ایجنڈے یا اس ملک کی طرف جھکاؤ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی سرور پروائڈر ایک سے زیادہ ڈیٹا سرورز رکھتے ہیں اور جہاں سے انھیں لگتا ہے کہ وہ مطلوبہ ویب سائٹ کو قریب ترین سرور سے منسلک کر کے صارف کے لیے تیز سروس فراہم کر سکتے ہیں وہ اسے منسلک کر دیتے ہیں۔ ‘ہم عموماً لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ آئس لینڈ یا دیگر یورپی ممالک میں رکھے گئے ڈیٹا سرورز سے اپنی ویب سائٹ کو منسلک کریں کیونکہ ان کی ڈیٹا پرائیویسی کے قوانین و ضوابط بہت اچھے اور صارف کی حق میں ہیں۔’ شہزاد احمد کہتے ہیں کہ ایک عام صارف کو اس بارے میں علم نہیں ہوتا کہ ان کی ویب سائٹ سے منسلک ڈیٹا سرور کس ملک میں موجود ہے۔
دوسری جانب مخدوم شہاب الدین کی جانب سے حامد میر اور عاصمہ شیرازی کو نشانے بناتے ہوئے ان کے انڈیا کے ساتھ روابط اور فریڈم نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے سرور کی انڈیا میں موجودگی کے بھونڈے دعوؤں کے بعد سوشل میڈیا صارفین بھی اس بارے میں اپنے رائے اور تبصروں کا اظہار کر رہے ہیں۔ آصف جوئیہ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے مخدوم شہاب الدین کے دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھا ’میں ایک ذمہ دار پاکستانی ہوں ۔۔۔ میں ایک سائبر سکیورٹی ماہر ہوں اور جو دعویٰ شہاب نے کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ دراصل شہاب نامی شخص کی جانب سے بتائی جانی والی ویب سائٹ کی ہوسٹنگ ڈیجیٹل اوشن نامی امریکی کمپنی کرتی ہے۔‘ ایک اور صارف نے بھی شہاب کے دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’عاصمہ شیرازی کے متعلق تمام دعوے ڈرامائی ہیں کیونکہ اگر آپ ویب سائٹ کی ڈومین رجسٹری میں جائیں تو یہ واضح ہے کہ یہ ڈومین پاکستان میں رجسٹر ہوئی اور اسے پرائیویسی کے لیے سنہ 2018 میں ماسکنگ کے لیے منتخب کیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ بھارت سے خود دوستی کی پینگیں بڑھانے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ کس منہ سے محب وطن صحافیوں کو ملک دشمن اور غدار ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

Back to top button