صحافی ندیم ملک کو ملنے والا نوٹس: ’ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گا نہ ضمانت کراؤں گا‘
مقامی صحافی اور نجی ٹی وی چینل سما میں ’ندیم ملک لائیو‘ ٹاک شو کے میزبان ندیم ملک کا کہنا ہے کہ وہ کسی قمیت پر بھی ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گے اور اگر وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) انھیں گرفتار کرنا چاہتا ہے تو ’ایف آئی اے کے حکام یہ شوق بھی پورا کر لیں۔‘
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے ندیم ملک کو اپنے ایک بیان کی وضاحت اور متعلقہ معلومات فراہم کرنے کے لیے منگل (آج) کے روز پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
28 اپریل کو آن ایئر ہونے والے اپنے ایک پروگرام میں ندیم ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ ایف آئی اے کے چند سینیئر اہلکاروں نے انھیں بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا دلوانے کے لیے اس وقت کی اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ’شاہراہ دستور پر واقع ایک عمارت میں طلب کیا گیا تھا۔‘
ندیم ملک کے بقول اس عمارت میں فوج کے حساس ادارے کے دو سینیئر افسران موجود تھے، جنھوں نے احتساب عدالت کے جج کو ان کی 30 سال قبل ملتان میں بنائی گئی ’قابل اعتراض ویڈیو‘ دکھائی اور دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس ریفرنس میں فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق نہ دیا تو وہ یہ ویڈیو ’وائرل کر دیں گے۔‘
اشتہار
ندیم ملک نے اس انکشاف میں فوج کے حساس اداروں کے افسران کے نام ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی فوج نے اس پر کوئی بیان جاری کیا ہے۔
اپنے بیان میں اینکر نے کہا کہ یہی ویڈیو پاکستان مسلم لیگ نواز کے ’ہتھے بھی چڑھ گئی، جس کی بنیاد پر یہ جماعت ارشد ملک سے اپنے حق میں فیصلہ چاہتی تھی۔‘
یاد رہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں جج ارشد ملک نے نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں اُن کو بری کر دیا تھا۔
بعدازاں ایف آئی اے نے ندیم ملک کو اس بیان سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے طلب کر رکھا ہے۔
ندیم ملک کا مؤقف کیا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ندیم ملک کا کہنا تھا کہ انھیں شک ہے کہ انھیں ایف آئی اے سے نوٹس دلوانے میں اہم عہدوں پر فائز حکومتی عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ گذشتہ کچھ عرصے سے بدعنوانی کے بڑے سکینڈل جن میں رنگ روڈ کا منصوبہ، لاہور میں شروع کیے گئے مختلف منصوبوں اور حکومت میں شامل ایک اہم شخصیت کے اسرائیل کے مبینہ دورے کو بےنقاب کرتے آ رہے ہیں اور ان کی اطلاعات کے مطابق اہم عہدوں پر بیٹھے یہ افراد جن کا ان منصوبوں میں مفاد وابستہ ہے، ان انکشافات سے خوش نہیں تھے۔
ندیم ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس نوٹس پر ایف آئی اے میں پیش ہوں گے نہ ہی قبل از وقت ضمانت کروائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ کسی صحافی سے اس کی خبر کے ذرائع کے بارے میں پوچھنا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنھوں نے جرم کیا ہے ان کو پکڑیں اور انھوں نے تو بطور صحافی اس مبینہ جرم کے بارے میں معلومات دی ہیں۔
ایف آئی اے کے حکام کا موقف
اس نوٹس سے متعلق جب ایف آئی اے کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو، جس میں وہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان پر نواز شریف کو سزا دینے کے لیے دباؤ تھا، پر ایف آئی اے نے پہلے ہی مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ مقدمہ بھی ارشد ملک کی درخواست پر ہی دائر کیا گیا تھا جس میں تین افراد کو نامزد کیا گیا۔ واضح رہے کہ ارشد ملک گذشتہ برس دسمبر میں کورونا کی وجہ سے اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پا گئے تھے۔
ندیم ملک کو جو نوٹس دیا گیا ہے اس میں بھی اس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چونکہ انھوں نے اس مقدمے کے حوالے سے بڑے انکشافات کیے ہیں اور اگر وہ مزید کچھ حقائق سے پردہ اٹھائیں گے تو اس مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔
اہلکار کے مطابق اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم نے صحافی ندیم ملک سے معلومات لینے کے لیے طلب کیا ہے۔
مقدمے کا پس منظر
سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے سات جولائی 2019 میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی کچھ ویڈیوز کا انکشاف کیا تھا، جس میں ان کی وہ ویڈیو بھی شامل تھی، جس میں وہ پاکستان مسلم لیگ کے رہنما ناصر بٹ کے ساتھ گفتگو میں اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جیل بھیجنے سے متعلق فیصلہ سنانے کے لیے دباؤ تھا۔
اس وقت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ان ویڈیوز کی تردید کی تھی اور اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا جس میں انھوں نے نہ صرف اس ویڈیو کی تردید کی تھی بلکہ اس ویڈیو کو انھیں بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیا تھا۔
صحافی ثاقب بشیر کے مطابق ارشد ملک کے اعتراف کی یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے انھیں عہدے سے ہٹا دیا تھا اور بعدازاں انھیں پہلے وزارت قانون اور پھر لاہور ہائی کورٹ واپس بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس معاملے سے متعلق ایک درخواست سپریم کورٹ میں بھی دائر کی گئی اور اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ارشد ملک کی اس اعترافی ویڈیو کے بارے میں ریمارکس دیے تھے کہ اس سے ’ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔‘
ایف آئی اے نے ارشد ملک کی درخواست پر ناصر بٹ سمیت تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اس پر انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی لگا دی تھیں۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
ثاقب بشیر کے مطابق اس وقت اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان ضمانتوں پر ہیں۔
ثاقب نے بتایا کہ اس معاملے میں جو اہم پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی نواز شریف وطن واپس آئیں گے اور وہ خود کو قانون کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد جب ان سزاؤں کے خلاف اپیل دائر کریں گے تو ان اپیلوں پر میرٹ پر فیصلہ کرنے سے پہلے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اس جمہوری دور میں صحافیوں کو جس طرح چن چن کر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اس طرح تو فوجی آمروں کے ادوار میں بھی نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ تمام صحافی تنظمیں ندیم ملک کے ساتھ کھڑی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے بل میں بھی یہ بات شامل ہے کہ کسی صحافی سے اس کی خبر کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی اہم معاملہ ہو جائے اور بات عدالتوں تک چلی جائے تو اس صورت میں بھی صحافی صرف جج کو بتانے کا پابند ہے اور جج یہ تمام معاملات صیغہ راز میں رکھے گا۔
پی ایف یو جے کے صدر کا کہنا تھا کہ اگر یہ نوٹس واپس نہ لیا گیا تو ادارے خود اپنے لیے مشکلات پیدا کریں گے کیونکہ صحافی برادری کسی طور پر بھی اس غیر قانونی اقدام کو برداشت نہیں کرے گی۔
’ایف آئی اے انھیں مجبور نہیں کر سکتی‘
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل قیصر امام کا کہنا ہے کہ اگر کوئی تفتیشی ادارہ ایک ایسے مقدمے کی تفتیش کر رہا ہو اور کچھ ایسی معلومات سامنے آئی ہوں، جس سے اس مقدمے کی تفتیش میں پیش رفت میں مدد مل سکے تو وہ کسی کو بھی نوٹس دے کر طلب کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں ایف آئی اے نے جتنے لوگوں کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کیے ہیں ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا ہے۔ قیصر امام کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے ججز یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے طلبی کے نوٹس کسی کو دباؤ میں لانے اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر تفتیشی اداروں کے بلانے پر کوئی شخص پیش نہ ہو تو تفتیشی اداروں کے اہلکار متعلقہ عدالت سے وارنٹ گرفتاری بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ ندیم ملک کو بطور ملزم طلب نہیں کیا ہے بلکہ ان کو طلب کرنے کا مقصد بظاہر تفتیش میں مدد حاصل کرنا ہے۔
ان کے مطابق نوٹس میں ایف آئی اے ’یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ صحافی کے پاس جو معلومات ہیں، اس کے ذریعے ایجنسی اصل مجرموں تک پہنچنے کی کوشش میں ہے۔‘
ان کے خیال میں اب یہ ندیم ملک پر ہے کہ وہ ایف آئی اے کو مزید کوئی اہم معلومات دینا چاہتے ہیں یا پھر وہ اپنے ذرائع کو ظاہر نہ کرنے کے اپنے حق کو استعمال کرنا چاہیں گے۔
سابق پراسیکیوٹر کے خیال میں قانون کے مطابق اس نوٹس کے جواب میں ’اگر ندیم ملک کوئی تعاون نہیں کرتے تو ایف آئی اے انھیں ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔‘