صدرٹرمپ انڈیا پاکستان تنازعے میں کودنےسےانکاری کیوں ہو گئے؟

اس مرتبہ اگر انڈیا اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچے تو ماضی کی طرح ان نیوکلیئر ہمسایوں کو چھڑوانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا، ماضی میں جب انڈیا اور پاکستان جنگ کے قریب پہنچتے تھے تو امریکہ بیچ بچاؤ کروا دیتا تھا، لیکن اس مرتبہ صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کی باہمی کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ یہ پندرہ سو سال پرانا مسئلہ ہے‘ جسے پاکستان اور بھارت خود طے کر لیں گے۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کا رووف کلاسرا اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر دفعہ ہم ایک دوسرے کے بندے مارتے ہیں‘ اور پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھاگی بھاگی آتی ہے اور ہاتھ جوڑ کر دو پہلوانوں کو چھڑوا لیتی ہے۔ تاہم تین چار سال بعد پھر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہمیں واپس اس جگہ پہنچا دیتا ہے۔ پھر دنیا بھاگی آتی ہے۔
لیکن رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ اس مرتبہ تو کسی ملک نے انڈیا پاکستان کشیدگی میں اضافے کے باوجود لفٹ نہیں کرائی کیونکہ وہ تھک چکے ہیں۔ جب صدر ٹرمپ سے پاکستان اور بھارت کی موجودہ کشمکش کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے طنزیہ جواب دیا کہ یہ ایک صدی سے پرانا مسئلہ ہے جسے پاکستان اور بھارت خود طے کر لیں گے۔ یعنی اس بار امریکی بھی تنگ ہیں ورنہ 2019ء میں صدر ٹرمپ نے ہی پاک بھارت ممکنہ جنگ کو روکا تھا۔
بھارت اور پاکستان کی جنگ کے خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے رؤوف کلاسرا کہتے ہیں کہ دراصل ہم نے وہ بربادی نہیں دیکھی جو دنیا کے دیگر کئی مسلمان ممالک کے عوام دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے اپنے گھروں پر بم گرتے نہیں دیکھے اور نہ ہی بچوں کیساتھ ہجرت کی ہے جیسے افغانستان‘ عراق‘ شام اور یوکرین کے لوگوں نے کی۔ ایسی ہی ایک جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے ہیں جن کیلئے جگہ بھی نہیں بچی جہاں وہ چھپ سکیں‘ اس لیے بھارت اور پاکستان کے عوام کا یہ پاگل پن سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں جنگ بھی ایک مذاق لگتی ہے۔
لیکن پھر وہی بات کہ عوام کیا کریں۔ یہ پاکستان اور ہندوستان کا مسئلہ نہ عوام نے پیدا کیا ہے اور نہ وہ حل کرسکتے ہیں‘ جو یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے غدار کا لقب ملتا ہے اور اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ 1500 سال پرانا مسئلہ ہے‘ وہ خود حل نہیں کرسکتے تو ہم ہزاروں میل دور بیٹھ کر کیسے کریں۔ اور ہم نے حل کرنا نہیں یا ہمارے اندر اتنی صلاحیت یا نیت نہیں یا پھر یہ مستقل دشمنی بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ بھارت پاکستان بقول ٹرمپ اپنے 1500 سال پرانے مسائل حل کر کے کیوں اپنے کاروبار خراب کریں۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کیا کسی دوست نے مجھے چند لطیفے اور میمز بھیجیں جو پاکستان اور بھارت کے موجودہ جنگی ماحول پر بن رہی ہیں اور لوگ ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُس دوست کا کہنا تھا کہ جنگ ایک خوفناک چیز ہوتی ہے مگر لوگوں کو یہاں مذاق اور جگتیں سوجھ رہی ہیں۔ ہمارے لوگ سنجیدہ کیوں نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک سب کچھ مذاق کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ لوگ اور کیا کریں۔ انکے بس میں کیا ہے‘ اگر انکی کچھ سنی جاتی ہو تو وہ کوئی سنجیدہ بات بھی کریں۔ اس پورے کھیل میں وہ ایک تماشائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
جب ہمارے طاقتور طبقات ہی نہیں چاہتے کہ پاکستان کو استحکام ملے تو پھر عوام کیا کریں۔ عوام کو بھی اس چیز کا ادراک نہیں ہے کہ جس استحکام کا مطالبہ وہ کرتے ہیں وہ استحکام عوام خود لا سکتے ہیں‘ اگر وہ اپنے اپنے لٹیروں کیلئے سڑکوں پر ہنگامے نہ کریں‘ جلسے جلوس نہ کریں‘ سڑکوں پر آگ نہ لگائیں‘ ہر دوسرے فراڈیے کے پیچھے نہ لگ جائیں تو ملک میں استحکام آسکتا ہے۔ لیکن عوام آئے روز سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں۔ وہی بات کہ بس انہیں لٹیرا اپنی پسند کا چاہیے‘ پھر چاہے ان سے جو مرضی کروا لو۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 1999ء میں لاہور آئے تو مینارِ پاکستان پر تقریر کی کہ ہم پاکستان کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ لاہور اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کو مذاکرات سے حل کرنے کیلئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ یہ وزیر اعظم نواز شریف کا کریڈٹ تھا کہ بھارتی وزیراعظم لاہور آکر مسئلہ کشمیر کو جلد حل کرنے پر راضی ہو گیا۔ لیکن ابھی یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی تھی کہ کارگل والا معاملہ ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف یہ انتظار نہ کر سکے کہ دو وزرا ئے اعظم اس مسئلے کا پُر امن حل تلاش کررہے ہیں کچھ وقت انہیں دینا چاہیے۔ بعد ازاں جنرل مشرف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر دو سال بعد آگرہ میں انہی واجپائی صاحب سے گلے مل رہے تھے۔ پھر انہی مشرف صاحب نے منموہن سنگھ کے ساتھ تقریباً تمام معاملات طے کر لیے مگر یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔ پھر جب مودی صاحب رائیونڈ آئے تو سب نے نعرے مارے کہ مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے۔ یوں وہ معاملہ وہیں رہ گیا۔
رووف کلاسرا یاد دلاتے ہیں کہ اس کے بعد جنرل باجوہ نے سنجیدہ کوشش کی کہ پاک بھارت تعلقات ٹھیک ہو جائیں۔ انہوں نے پاکستانی صحافیوں کو بلا کر بریف کیا کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر تنازع کو حل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ مودی صاحب پاکستان آئیں گے اور پھر حتمی اعلان ہو گا۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے تب کے وزیر اعظم عمران خان کو کہا کہ ایسا نہ کرنا ورنہ ہم پر الزام لگے گا کہ ہم نے کشمیر بیچ دیا۔ باجوہ صاحب بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کے سیاسی حکمرانوں نے ساتھ نہ دیا اور رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی۔ وہی میڈیا اور سیاستدان جو ہمیشہ کہتے تھے کہ فوج بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہونے دیتی‘ لیکن جب جنرل باجوہ نے اس ضمن میں کوشش کی تو یہی لوگ رکاوٹ بن گئے۔ کبھی سیاسی تو کبھی عسکری قیادت نے بھارت کے ساتھ معاملات درست کرنے کی طرف توجہ نہ دی۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب ہم خود نہیں چاہتے کہ ہم سکون سے رہیں تو پھر کون ہمیں سکون دلا سکتا ہے؟