طاقت کے ایوانوں میں بیٹھی جنرل رانیاں اور انکے بچے

پاکستان کے اصل حکمرانوں کی جانب سے جیو ٹی وی کے مالک سیٹھ شکیل الرحمان پر آنے والے دباؤ کے بعد حامد میر پر پابندی عائد ہونے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ طاقت کے بڑے بڑے ایوانوں میں ڈھیروں جنرل رانیاں اور ان کی اولادیں براجمان ہیں جو اپنی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو کاٹ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
حامد میر جیو نیوز میں اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک سے آف ائر ہو چکے ہیں۔ ادارے نے انہیں کام کرنے سے روک دیا ہے اور انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ حکومتی و انتظامی حلالہ کے بعد دوبارہ سے بنائے گئے وزیر اطلاعات اپنی حکومت کو اس عمل سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا ادارے اپنے اندرونی معاملات میں با اختیار ہیں۔ دوسری جانب گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ”ایک کثیر الاشاعت اخبار“ روزنامہ مخلوق کے سب ایڈیٹر اور ایک حکومتی خاتون ممبر قومی اسمبلی حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں۔ اپنی تیسری خفیہ شادی کے سکینڈل سے نبرد آزما اور ناگن ڈانس سے شہرت حاصل کرنے والے حکومتی ممبر بھی اپنے آٹھ منٹ کے وڈیو کلپ میں مودبانہ انداز میں حامد میر کو کچھ دھمکیاں لگا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حامد میر کے خلاف تحقیر آمیز مہم زور و شور سے جاری ہے۔ کئی چھوٹے اینکر اور اینکرنیاں چیخ چنگھاڑ رہے ہیں اور حامد میر کیے کچھ جملوں کو ریاستی اداروں پر حملہ قرار دے چکے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ نہ تو پہلی دفعہ ہو رہا ہے اور نہ آخری دفعہ مگر اس دفعہ یہ واقعہ کچھ دیگر واقعات کی لڑی میں جڑا ہونے کی وجہ سے کچھ مختلف نتائج کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ مگر اس سے یہ حقیقت آشکار ضرور ہوئی ہے کہ سیٹھوں کے سر پر بھی کچھ سیٹھ ہیں اور یہ ایسے سیٹھ ہیں جو سیٹھوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں اور جو اپنے خود ساختہ وقار کے لئے ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں۔ واہ رے سیٹھ تیری اوقات۔
اس سارے طوفان بدتمیزی کے پیچھے وہی حقیقت ہے کہ حامد میر سمیت چند صحافیوں پر ریاستی اداروں کی طرف سے الزامات ہیں کہ صحافیوں کا یہ گروپ ففتھ جنریشن وار فیئر کے ساتھ جڑنے کی بجائے اختلافی آواز اٹھاتا اور دلیل کے ساتھ موثر تنقید کرتا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ مگر صرف ایک سوال حل طلب ہے کہ اگر یہ صحافی ”جھوٹے اور دشمنوں کے آلہ کار“ ہیں اور ایک مخصوص ایجنڈا کو آگے بڑھاتے ہیں تو پاکستانی قوم ان کے نفرت بھرے پیغام پر کیوں کان دھرتی ہے اور انہیں پاکستان کے باوقار صحافی کیوں سمجھتی ہے۔
ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام پر پاکستان کے میڈیا میں ایسے ہزاروں ”صحافی“ داخل کر دیے گئے ہیں کہ جو معروف ریاستی بیانیے کو شد و مد سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ خواتین و حضرات مثبت خبروں کے انبار لگا کر اپنے پروگرام شروع کرتے اور ”اتنی شدت سے گلشن میں بہار آئی ہے“ کے نعرے کے ساتھ پروگرام ختم کرتے ہیں۔ اتنی ساری مثبت آوازوں اور شور و غوغا میں اختلاف اور تنقید آخر کوئی کیوں سنے گا۔ یا پھر طاقتوروں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حقائق اس کے الٹ ہیں۔ ساری مثبت خبریں جھوٹ کی آواز اور سارا سرکاری بیانیہ ایک فریب نظر ہے جسے پاکستان کے باشعور عوام جانتے اور پہچانتے ہیں اور اسی وجہ سے ان صحافیوں کی گفتگو کو اہم بھی سمجھا جاتا ہے اور ان کی بات معتبر بھی ہوتی ہے۔
یہ غدار ہے۔ وہ غدار ہے۔ اس کا ایسا ایجنڈا ہے اور اس کا ویسا ایجنڈا ہے جیسی باتیں اب صرف ابن انشاء کی ”اردو کی آخری کتاب“ کے مزاح میں اچھی لگتی ہیں۔ ریاست کے طاقتور اداروں میں بیٹھے محترم صاحبان اگر ایسے ہنسی کے گول گپوں سے اجتناب کرنا شروع کر دیں تو یہ بطور قوم ہمارے درخشاں مستقبل کے لئے اچھا ہوگا۔ وگرنہ سچ اور جھوٹ لازمی طور پر کبھی نہ کبھی تو سامنے آ ہی جاتا ہے۔ راقم الحروف کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ صحافی اسد طور پر ہوئے حملے کے خلاف منعقد ہوئے پرامن احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے کسی طاقتور شخص کی نازیبا حرکات کا جو حوالہ دیا ہے اسے کوئی اہمیت دی جانی چاہیے یا نہیں یا اس پر مزید کوئی تحقیق کی جانی چاہیے یا نہیں۔
بلکہ فکر تو اس بات کی جانی چاہیے کہ جنرل رانیوں کا ابھی بھی مکمل ہولڈ ہے اور لگتا ہے کہ ہمارے طاقتور ادارے ان دیکھی جنرل رانیوں کے موڈ پر چل رہے ہیں۔ حامد میر کی بات پر جو ردعمل آ رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بہت سارے شعبوں میں یا تو جنرل رانیاں ہیں یا پھر ان کی اولادیں جنہوں نے پاکستان کے عوام کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے کے لئے ہر قدم اٹھایا ہوا ہے۔ اور محفل غصب منعقد کی ہوئی ہے۔
بریگیڈیئر (ر) احمد ارشاد ترمذی نے اپنی کتاب ”حساس ادارے“ میں کافی کچھ ایسا لکھا ہے جس میں یا تو وہ خود ہیرو ہیں یا پھر ان کا ادارہ سپر ہیرو ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ غلطیاں تسلیم کرنے والے ہی ترقی اور استحکام کی حقیقی منزل پاتے ہیں نہ کہ وہ جو صرف سبز باغ دکھاتے رہیں۔ خیر ترمذی صاحب اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں ”مختلف وجوہات کی بناء پر ہمارے ادارے کو کافی لوگوں کی جاسوسی کرنا پڑتی تھی۔ اور جاسوسی کرنے والے سٹاف کی طرف سے نجی زندگی کے متعلق رپورٹس بھی شامل ہوتی تھیں۔ ہمارے ادارے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح متعلقہ شخص تک نجی زندگی کی ان حرکات کی خبر پہنچا دی جائے تاکہ آئندہ احتیاط کی جا سکے۔ ”
مگر ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ادارے نے فیصلہ کیا کہ ایسی نجی معلومات کا ایک پورا ڈیٹا بنک بنایا جائے تاکہ بوقت ضرورت استعمال کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں۔ جب اداروں میں بیٹھے لوگ ایسے نت نئے طریقے ایجاد کریں گے تو ہر کوئی آڈیو وڈیو ریکارڈ رکھے گا بھی صحیح اور اسے بوقت ضرورت استعمال بھی کرے گا۔
لہذا ریاست کے اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسی بلیک میلنگ سے فاصلہ اختیار کریں۔ پاکستان میں نہ تو جنرل رانیوں کی کمی ہے اور نہ ان کی اولادوں کی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے یحییٰ خان کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ تاکہ ہم سب اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Back to top button