طالبان کا مذاکرات کی بجائے طاقت سے اقتدار لینے کا فیصلہ

اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی انٹیلی جنس نے خبردارکیاہے کہ افغان طالبان امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد وہ سب کچھ طاقت کے زور پر حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں جو کچھ وہ مذاکرات کی میز پر حاصل نہیں کر سکے۔
اقوام متحدہ کی سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم یعنی پابندیوں کا جائزہ لینے والی ٹیم نے ایک خفیہ تجزیاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ افغان طالبان ابھی تک گزشتہ سال امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تکنیکی طور پر تعمیل کر رہے ہیں لیکن انہوں نے جنگ جاری رکھتے ہوئے افغانستان پر اپنی گرفت کافی مضبوط کر لی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے ملک کے نصف سے زیادہ ضلعی انتظامی مراکز کا براہ راست کنٹرول ھاصل کر۔کیانی جبکہ شہری علاقوں سے باہر 70 فیصد علاقے بھی ان کے کنٹرول میں آ چکے ہیں۔ ان حالات میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ابھی آغاز ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق:’’ طالبان کی لڑائی کے سیزن کی تیاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سال 2021 میں اپنا فوجی آپریشن بڑھا رہے ہیں، بھلے وہ حملوں کا اعلان کریں یا نہ کریں‘‘۔ ان رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کمانڈروں نے ملک کے اہم شہروں کے نزدیک اپنی فورسز کو بڑھا دیا ہے اور وہ مستقبل قریب میں گوریلا آپریشنز اور حملوں کے لیے تیار ہیں جب غیر ملکی افواج ان کو موثر انداز میں جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید خبردار کیا گیا ہے کہ ہمارے پاس کم ہی ثبوت ہیں کہ طالبان نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط ختم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہوں جیسا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے میں طے ہوا تھا۔ اس کے برعکس، خفیہ معلومات یہ ظاہر کرتی ہی کہ طالبان اور القاعدہ کے تعلقات ذاتی مراسم، آپس میں شادیوں اور مشترکہ مزاحمت کے سبب مزید گہرے ہو گئے ہیں اور اب یہ تعلقات دوسری نسل تک منتقل ہو چکے ہیں۔’’
اقوم متحدہ کی خفیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے اراکین کو افغان طالبان نے دور دراز علاقوں میں بھجوا دیا ہے تاکہ ان کو ممکنہ طور پر لوگوں کے سامنے آنے اور نشانہ بنائے جانے سے بچایا جا سکے‘‘ رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے پانچ سو کے قریب ممبرز جو مرکزی گروپ اور القاعدہ انڈین سب کانٹینینٹ سے وابستہ ہیں، وہ پندرہ صوبوں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔تاہم طالبان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ بدقسمتی سے یہ رپورٹ دشمن کی ایجنسیوں کی اطلاعات پر مرتب کی گئی ہے۔ترجمان طالبان کے مطابق اس طرح کی یک طرفہ رپورٹیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتی ہیں اور اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اسلامی امارات کے نمائندے بین الافغان مذاکرات کی میز پر جانے کے لیے بھی مکمل طور پر تیار ہیں تاکہ مذاکرات میں پیش رفت ہو اور معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد ہو سکے۔
لیکن دوسری جانب امریکہ نے اس رپورٹ کو درست قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں امن کا واحد اور پائیدار راستہ بین الافغان مذاکرات سے نکلتا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا’’ افغانستان میں ہمارا حتمی مقصد چار دہائیوں سے جاری تنازعے کا خاتمہ ہے۔ اس طرح کے ماحول میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کا امکان کم ہے‘‘نیڈ پرائس طالبان کو بظاہر متنبہ کرتے ہوئے نظر آئے کہ تشدد سے باز رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا افغانستان کے اندر طاقت سے کسی حکومت کے مسلط ہونے کو قبول نہیں کرے گی۔ امریکہ کے ایک اور اہم عہدیدار زلمے خلیل زاد، جو افغان مصالحتی عمل کے لیے نمائندہ خصوصی ہیں، کہہ چکے ہیں کہ طالبان کی سب سے بڑی خواہش خود کو بین الاقوامی برادری سے تسلیم کروانا ہے۔ ان کے بقول طالبان سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ان کو قبولیت اور بین الاقوامی امداد سے محروم ہونا پڑے گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہوتے ہی افغانستان کے جنوبی حصے میں افغان طالبان نے سرکاری فورسز کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کے بغیر ایک اور ضلعے پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد حالیہ عرصے میں طالبان کے کنٹرول میں جانے والے اضلاع کی تعداد سات ہو گئی ہے۔
صوبہ زابل کے ایک سیکیورٹی عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری فورسز کے پسپا ہونے کے بعد طالبان ضلع شینکی میں داخل ہو کر قابض ہو گے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان افغانستان میں ایک ایسے وقت میں اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے جب امریکہ اور نیٹو ممالک اپنی فوجی واپس بلا رہے ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے اپنی فورسز کے مکمل انخلا کے لیے اس سال 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن طے کر رکھی ہے۔