طالبان سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کیوں کر رہے ہیں؟


افغان طالبان نے ملک بھر میں پیش قدمی کرتے ہوئے اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت جنگ کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ سرحدی تجارتی گزرگاہوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان راستوں سے پورے ملک کو تجارتی سامان کی سپلائی ہوتی ہے اور اب ان گزرگاہوں پر ٹیکس اور ڈیوٹی افغان حکومت کی بجائے طالبان وصول کر رہے ہیں جو کہ اسلامی امارات کے خزانے میں جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغان حکومت کو درآمد اور برآمد کی مد میں تقریباً 20 ملین ڈالرز کی آمدنی ہوتی تھی اور اب یہ کمائی افغان طالبان کر رہے ہیں اور اسے اشرف غنی حکومت کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کوئی سمندر نہیں اور یہ مختلف ممالک سے صرف زمینی راستوں کے ذریعے منسلک ہے۔ اس لیے اسےلینڈ لاک ملک بھی کہا جاتا ہے۔
اس معاملے میں افغانستان کا انحصار ہمسایہ ممالک پر ہے جن میں وسط ایشائی ممالک ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، اور پاکستان شامل ہیں جہاں سے اسے اشیائے خورد ونوش اور دیگر سامان کی ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے سرحدی راستوں پر قبضے کی حکمت عملی کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان کا مقصد ایک طرف کابل حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے دوسری جانب ان کے ذرائع آمدن ختم کرنا ہے۔ افغان طالبان رہنما جار اللہ آغا نے ایک انٹرویو میں کہا یے کہ ہم نے مالی اور اقتصادی امور کے نگران طالبان رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ جتنا جلد ہو سکے سرحد پر موجود ٹرکوں سے ٹیکس وصول کر کے انہیں جانے دیا جائے۔
کابل میں مقیم معروف تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد کے مطابق طالبان کے سرحدوں پر قبضے اور دیوٹی اور ٹیکس کی وصولی سے سامان کی ترسیل میں پچاس فیصد تک کمی ہوچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کی اس حکمت عملی سے کابل حکومت پر زیادہ اثر نہیں پڑ رہا بلکہ اس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ نجیب کے بقول: دو ہفتوں کے دوران افغانستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہوگیا ہے، جو پیٹرول دو ہفتے قبل 40 سے 45 افغانی میں مل رہا تھا وہ اب 70 افغانی تک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دوسری اہم ترین ضرورت گیس کی ہے۔ جو گیس پہلے 35 افغانی فی کلو مل رہی تھی وہ اب 80 افغانی ہوگئی ہے۔ نجیب نے بتایا کہ طالبان نے تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن وہ سرحدوں پر افغانستان میں داخل ہونے والے گاڑیوں سے ٹیکس اور ڈیوٹی وصول کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں اہم تجارتی بندرگاہیں جو وسطیٰ ایشائی ممالک کے علاوہ پاکستان اور ایران سے منسلک ہیں ان میں تاجکستان سے متصل شیرخان، ازبکستان سے حیرتان، ترکمانستان سے تورغنڈی، ایران سے اسلام قلعہ ، ابونصر فراحی ایران اور سپن بولدک جو پاکستان سے ملاتا ہے۔
دوسری جانب جن سرحدوں پر طالبان قابض ہیں۔ وہاں پر ان کا ٹیکس لینے کا بھی اپنا طریقہ کار ہے۔ اس وقت افغان طالبان سرحدوں پر اس حساب سے ٹیکس وصول نہیں کررہے ہیں کہ تجارتی گاڑیوں میں سامان کیا ہے، چاہے وہ سونا ہو یا کچھ اور بلکہ وہ گاڑیوں کے ٹائر کے حساب سے رقم وصول کرتے ہیں۔ جتنی بڑی گاڑی ہوگی جیسے ٹرالر وغیرہ، اتنا ہی زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے اور باقی گاڑیوں کے بھی ٹائر گن کر اس کے حساب سے ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لیخن ملک میں صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے کیوں کہ طالبان کے سرحدوں پر قبضے کے بعد تجارت کم ہوگئی ہے اور تاجر سامان منگوانے سے کترارہے ہیں۔ چونکہ سرحد کے علاوہ راستے میں بھی طالبان اور افغان فورسز میں جھڑپیں چل رہیں لہازا تاجروں کو خطرہ رہتا ہے کہ کہیں ان کی گاڑیاں حملوں کا نشانہ نہ بن جائیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سرحدوں پر طالبان کے قبضے سے کابل حکومت کو دھچکا لگا ہے۔ اس سے افغان حکومت کو مفلوج تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے ذرائع آمدن میں نمایا کمی ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغان حکومت کو درآمد اور برآمد کی مد میں تقریباً 20 ملین ڈالرز کی آمدنی ہوتی تھی اور اب یہ کمائی افغان طالبان کر رہے ہیں اور اسے اشرف غنی حکومت کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

Back to top button