طالبان نے مقتول کامیڈین کو پولیس والا قرار دے دیا


افغان طالبان نے حال ہی میں اپنے جنگجوؤں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کامیڈین خاشہ زوان کے مزاحیہ فنکار ہونے کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک مسلح پولیس افسر تھا جو طالبان کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ انکا کہنا ہے کہ گرفتاری کے وقت بھی اس کے پاس بندوق تھی اور وہ طالبان کے خلاف لڑ رہا تھا۔
یاد رہے کہ حال میں افغانستان میں ایک سابق پولیس اہلکار اور مقامی مزاحیہ اداکار کو طالبان نے قتل کر دیا تھا جس کی وسیع پیمانے پر مذمت ہوئی تھی۔ شروع میں افغان طالبان نے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی لیکن جب مزاحیہ فنکار کی طالبان کے ہاتھوں گرفتاری کی ویڈیو وائرل ہوئی تو انہوں نے الزام تسلیم کرلیا۔ سامنے آنے والی ویڈیو میں موجود شخص کو ’خاشہ زوان‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جن کی مزاحیہ ویڈیوز اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر بھی مشہور ہوتی رہی ہیں۔ قندھار کے حکام کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان کو ان کے گھر سے مسلح افراد نے حراست میں لیا تھا۔ بعد ازاں خاشہ کی لاش قندھار کے علاقے سے برآمد ہوئی ہے۔ خاشہ کو رات کو گھر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں صبح ان کی لاش ملی۔
سوشل میڈیا پر ان کی لاش کی تصاویر بھی زیرِ گردش ہیں جن میں ان کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن اب وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خاشہ کے مزاحیہ فنکار ہونے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ خاشہ ایک مسلح پولیس افسر تھے۔ وہ طالبان کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ اس کے پاس بندوق تھی اور وہ طالبان کے خلاف لڑ رہا تھا۔ طالبان ترجمان نے بطور ثبوت خاشہ کی ایک تصویر شئیر کی جس میں ان کے ہمراہ ایک بندوق کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان جنگجوؤں نے حراست میں لیا تھا۔ جیل منتقلی کے دوران وہ مارے گئے۔ البتہ طالبان نے خاشہ کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ کیوں کہ ان کی ہلاکت طالبان کے طریقۂ کار کے خلاف ہے۔
دوسری جانب خاشہ کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں طالبان کے رویے کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔ اگرچہ طالبان اس بات کی جانب اشارہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی پالیسی گزشتہ دور سے قدرے مختلف ہو گی۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا طالبان صرف حکمرانی کے حصول کے لیے کہتے ہیں۔ جب کہ دراصل طالبان صرف طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سے قبل قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین سے جب خاشہ کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے اسے الزام قرار دیتے ہوئے پہلے مکمل طور پر مسترد کیا۔ بعد میں جب ان سے خاشہ کی طالبان جنگجوؤں کے ہمراہ ویڈیو شئیر کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔ قندھار کے ایک مقامی صحافی کے مطابق اس وقت قندھار میں طالبان اور افغان اسپیشل فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جان بچانے کی غرض سے ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاشہ کی ہلاکت کے بعد مقامی سطح پر خوف میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب قندھار شہر میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکار میڈیا سے بات کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ بھی طالبان کے حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
افغان صحافی کے مطابق خاشہ زوان کو اس سے قبل بھی مخالفین گرفتار کر چکے تھے۔ اور رہائی کے بعد انہوں نے لطیف انداز میں طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا خاشہ کی ویڈیوز کچھ عرصے سے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹک ٹاک پر کافی مشہور تھیں۔ اگرچہ ان کی ویڈیوز میں مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ بھی ہوتی تھی جس میں اکثر وہ طالبان کو نشانہ بناتے تھے۔ تاہم مقامی افراد اس سے محظوظ ہوتے تھے۔ طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے بھی قندھار میں خاشہ زوان کی ہلاکت میں طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔ قاری یوسف احمدی کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ بدنام عسکریت پسند کو ایک گوریلا حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کار میں دو مسلح افراد کے درمیان خاشہ زوان موجود ہے۔ جب کہ ویڈیو بنانے والا شخص پشتو میں ان سے گفتگو بھی کر رہا ہے۔ ویڈیو بنانے والے شخص کے اس سوال پر کہ ان کو کیسے حراست میں لیا گیا تو خاشہ زوان کا کہنا تھا کہ وہ عید منانے کے لیے گھر آئے ہوئے تھے کہ رات کو ان کو پکڑ لیا گیا۔ بعد ازاں ان کے چہرے پر تھپڑ بھی مارے جا رہے ہیں تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ خاشہ زوان کے قتل پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے اور کئی سوشل میڈیا صارفین ان کے قتل کی مذمت کر رہے ہیں۔ افغانستان کے اول نائب صدر امر اللہ صالح کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ خاشہ زوان کے قتل سے ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان کسی شریعت کو نہیں مانتے۔ ان کی کوئی عدالت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قانون اور انسانیت ہے۔ انہوں نے طالبان کو جاہل اور دہشت گردوں کا گروہ قرار دیا۔
افغانستان کے دوئم نائب صدر سرور دانش کا سوشل میڈیا کی ایک طویل پوسٹ میں کہنا تھا کہ خاشہ زوان کے چہرے پر مارا گیا تھپڑ افغان عوام کو رسید کیے گئے تھپڑ کے برابر ہے۔ انہوں نے ان کے قتل کی مذمت کی اور اسے افغانستان کے ثقافت کے منافی قرار دیا۔ افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سابق ترجمان کبیر حقمل کا کہنا تھا کہ خدا شاہد ہے کہ لڑائی کو اسلام، انسانیت، غیرت اور احساس سے آگے لے جایا گیا ہے اور اس کو وحشت بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے بھی خاشہ زوان کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نذر محمد لوگوں کو ہنساتا تھا۔ طالبان نے اس کو گھر سے نکال کر قتل کیا۔
افغانستان کے صدر کے سابق مشیر ڈاکٹر عمر ذاخیل وال نے خاشہ زوان کی مسلح افراد کی حراست اور پھر ان کی لاش کے ساتھ اہلِ خانہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ظلم اور مظلومیت دونوں کی انتہا کی تصاویر۔
افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ لوگ افغانستان پر حکمرانی کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن ایک معصوم افغان جیسے خوشہ زوان کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ اجرتی قاتلوں پر مشتمل ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے بھی سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ خاشہ زوان زندگی بھر لوگوں کو ہنساتا رہا۔ سنگ دل دہشت گردوں نے خاشہ زوان کے بچوں کو رُلا دیا۔ افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل سے وابستہ سعید اللہ ترکئی نے کہا کہ خاشہ زوان کا گناہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا تھا۔
افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان کی بیوی نوجوانی میں بیوہ ہو گئی ہے جب کہ ان کی بیٹیاں یتیم ہو گئی ہیں۔ عقل سے عاری لوگ اس پر خوش ہو رہے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے دشمن کو قتل کر دیا ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دشمن بھی وہی ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی، علم اور ترقی کے دور میں بھی ہمارے سامنے جہالت موجود ہے۔
افغان صحافی شریف حسن کا کہنا تھا کہ طالبان نے کامیڈین نذر محمد کو حراست میں لیا۔ وہ کبھی زمانے میں مقامی پولیس کا اہلکار تھا۔ طالبان نے اس کی بے عزتی کی اور اسے تھپڑ مارے۔ پھر اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا اور اس کی لاش ایک درخت سے لٹکا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تصویر جس میں لاش ایک گاڑی میں پڑی ہوئی اور ان کی بیٹیاں اور بیوی لاش کے گرد کھڑے ہیں دل کو تکلیف دینے والی تصویر ہے۔ مقامی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی عبد اللہ ہمیم نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی اور ساتھ میں لکھا کہ خاشہ زوان قندھار کا ایک مشہور مزاحیہ اداکار اور پولیس اہلکار تھا جس کو گھر سے پکڑ کر قتل کیا گیا۔

Back to top button