طالبان واپس آ نہیں رہے بلکہ واپس آ چکے ہیں


بیس برس تک طالبان سے برسرپیکار رہنے والی غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے سے پہلے ہی طالبان تیزی سے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کر رہے ہیں، یعنی افغان طالبان افغانستان میں واپس آ نہیں رہے بلکہ آ چکے ہیں۔ طالبان کی واپسی کسی پُرانی فلم کا نیا سیکوئیل معلوم ہوتی ہے۔ افغان طالبان نے ایک طرف اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہے تو دوسری جانب خطے کی طاقتوں کو مسلسل انگیج بھی کیا ہوا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا نے طالبان کے حوصلوں کو بے پناہ مضبوط کر دیا ہے اور کیوں نہ ہو سُپر پاور کو ایک نامکمل ایجنڈے کے ساتھ افغانستان سے رُخصت کرنا ان کی فتح تو ہے مگر عالمی دنیا کی جانب سے طالبان سے نئے دور میں نئے تقاضوں کے مطابق توقعات باندھنا بھی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
گیارہ ستمبر 2001 کو افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہو مکمل ہونے سے دو ماہ پہلے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی کمان کرنے والے جنرل آسٹن ملر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس سے افغانستان میں طالبان مخالف جنگ کا علامتی اختتام ہو گیا۔ تاہم امریکہ سے امن معاہدے کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلا ایک طرح سے طالبان کے خلاف بیس برس جاری رہنے والی جنگ میں ہونے والی شکست کا اعتراف بھی ہے چاہے کوئی اس کو مانے یا نہ مانے۔ اب طالبان ملک بھر میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور قبضے پر قبضہ کئے جا رہے ہیں۔
اس معاملے پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں کہتی ہیں کہ افغانستان اور خطے کی صورت حال دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ دائروں کا سفر قومی ہی نہیں خطے اور عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ خوف اور وسوسوں، خدشوں اور خطروں کا موسم پھر سے لوٹ آیا ہے۔ شدت اور انتہا پسندی، طاقت کے نتیجے میں مصلحت مزید خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ دور خطے میں اور علاقائی سطح پر طاقت اور آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ عاصمہ کہتی ہیں کہ کابل ابھی تک فتح تو نہیں ہوا لیکن فتح ہونے کے قریب ہے۔ اس دوران افغان طالبان کا ایرانی سرحد پر کنٹرول، پشتون علاقوں میں زور، ایک نئی گیم کا از سر نو آغاز بھی ہے۔ ایران میں ہونے والے مذاکرات کسی نہ کسی انڈر سٹینڈنگ کی علامت ہیں جبکہ طالبان کے لیے واحد اور پوٹینشل چیلنج داعش کی صورت موجود ہے۔ اس معاملے پر ایران اور افغان طالبان ایک صفحے پر ہیں۔ خطے میں موجود یہ دو قوتیں کسی طور داعش کو پنپنے نہیں دیں گی جبکہ افغان طالبان کے تہران میں مذاکرات کے دوران انڈین وزیر خارجہ کی وہاں آمد بھی بہت سے پیغامات لیے ہوئے ہے۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ دوسری جانب چین، روس اور ایران افغانستان کے معاملے پر یکجا اپروچ اپنائے ہوئے ہیں۔ انڈیا چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی نئے علاقائی نقشے پر اس قدرتی اتحاد کو درگزر نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی نئی پیش بندی چین کے خلاف ہے تو خطے میں کون سی طاقت امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گی یہ بھی دیکھنا اہم ہو گا۔ وہ۔کہتی ہیں کہ یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ جس ریاست پر بوجھ پڑے گا وہ پاکستان ہی ہے۔ پاکستان زمینی حقائق کے مطابق پالیسی ترتیب دے گا یا چند افراد کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے گا اس کا فیصلہ بھی جلد کرنا ہو گا۔
عاصمہ کے مطابق امریکہ کی لامحدود خواہشوں میں ہمارے پاس چند محدود آپشنز ہیں۔۔۔ ہم امریکہ سے کس حد تک تعاون کر سکیں گے؟ جانے والے تو گئے لیکن اختیار کی اس جنگ میں وہ اپنا اختیار مکمل چھوڑ بھی نہیں سکیں گے۔ کس کو کتنا حصہ ملے گا اور کون کس کی لڑائی لڑے گا یہ اب چند دنوں اور مہینوں کی بات رہ گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہو بھی تو سیاسی جماعتیں عوامی خواہشات کے برخلاف نہیں جا سکتیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بظاہر امریکہ مخالف بیانات دے رہی ہے، لیکن عملی اقدامات کا وقت ابھی نہیں آیا۔۔ جب وہ ووت آئے گا تو دیکھا جائے گا کی پالیسی بہر حال اب نہیں چل سکتی۔
عاصمہ شیرازی کے خیال میں اس چومکھی لڑائی کے کئی سرے ہیں مگر اب تک کوئی سرا پکڑائی نہیں دے رہا۔ کووڈ کے بعد کی دُنیا آمریت اور پاکستان مزید آمریت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک میں مطلق آلعنان طاقتیں برسر اقتدار ہیں۔ پاکستان میں بھی بظاہر ایسا ہی نظام چل رہا ہے تاہم نئے تقاضے کچھ اور ہیں اور خطے میں امریکہ کو اپنی جنگ لڑنے کے لیے مزید طاقتور کردار چاہیں۔ خدشوں میں گھری عالمی سیاست حادثوں کو جنم نہ دے، بس یہی دُعا ہے۔

Back to top button