طالبان پشاور کے پوش علاقے میں کیسے پہنچ گئے؟

افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی طالبان نے ملک کے 85 فیصد حصے پر قبضہ کر لینے کا اعلان کر دیا ہے جس کے واضح اثرات اب پاکستان میں بھی طالبان عناصر کی بڑھتی ہوئی طاقت کی صورت میں نظر آرہے ہیں ہے۔ اس کا ایک واضح ثبوت 9 جولائی کے روز پشاور شہر کے پوش علاقے بورڈ بازار میں افغان طالبان کے حق میں ہونے والی ایک بڑی ریلی تھی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کرنے والے موٹر سائیکل اور کار سواروں نے طالبان امارت اسلامی افغانستان کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ مسلسل افغان طالبان کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے تھے۔ اس ریلی کی ایک فوٹیج میں جلسے کے شرکاء کو بورڈ بازار میٹرو اسٹیشن پشاور سے یونیورسٹی روڈ کی جانب رواں دواں دیکھا جا سکتا ہے۔ خطرے کی بات یہ ہے اس ریلی کے شرکاء دراصل افغانستان میں دشمن فوج کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جانے والے افغان طالبان کمانڈر مولانا عبدالرشید کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ عبدالرشید کا تعلق پشاور کے نواحی علاقے ریگی سے تھا جہاں پر اسکی تدفین کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی اس ریکی کا سخت نوٹس لیا گیا ہے اور آئندہ انہیں ملک کے کسی بھی علاقے میں اس طرح کی سرگرمیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم افغان طالبان کی پشاور شہر میں ہونے والی ریلی نے افغان حکومت اور امریکی انتظامیہ کے ان الزامات کو تقویت پہنچائی ہے کہ پاکستان اب بھی طالبان کی سرپرستی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ تیزی سے افغانستان کے بیشتر حصوں پر قابض ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
پاکستان اس الزام کی سختی سے تردید کر رہا ہے لیکن نہ تو اشرف غنی کی حکومت اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ پاکستان کا موقف تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ دراصل گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان میں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کا خمیازہ براہ راست پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی جو کسی بھی علانیہ جنگ میں مرنے والوں سے زیادہ ہیں ایک ایسی جنگ میں مارے جا چکے جو کبھی لڑی ہی نہیں گئی۔ کوئی شہر، قصبہ ایسا نہیں جو دہشت گردی سے محفوظ رہا ہو اور کوئی گاؤں دیہات ایسا نہیں جہاں کوئی نہ مرا ہو۔ انسانی جانوں کے علاوہ معاشی نقصان کا تخمینہ کھربوں ڈالروں میں لگایا جاتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں بدامنی کا خمیازہ صرف انسانی جانوں اور معاشی نقصان تک ہی محدود نہیں بلکہ اسکا سماجی نقصان کہیں زیادہ ہے جو ناقابل تلافی ہے۔ پاکستانی معاشرہ 2001 ء سے پہلے اور اس کے بعد واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے۔ عدم برداشت، مذہبی منافرت، فرقہ پرستی، تکفیریت اور انتہا پسندی کو اس قدر فروغ ملا ہے کہ اب پاکستان نے شاید سب کو کئی محاذوں پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مدرسے تو ایک طرف جامعات اور کالجوں میں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات دوہرانے کی ضرورت نہیں جن کی کہیں اور مثال کم ملتی ہے۔
امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے اعلان کے بعد سے رونما ہونے والے کئی واقعات عام شہریوں کے لئے تو ناقابل فہم ہیں ہی مگر پاکستان حکومت کے لئے بھی شاید ناقابل یقین ہیں۔ ایک رات میں امریکی افواج کا افغان حکام کو اطلاع دیے بغیر بگرام کا ہوائی اڈہ خالی کرنا اور اپنے چھوڑے ساز و سامان کی کھلی لوٹ مار کی اجازت دینا، جگہ جگہ اسلحہ اور گولہ بارود طالبان کے حوالے کرنا، جہاں جہاں امریکی فوج کے اڈے موجود تھے وہاں افغان سیکیورٹی فورسز کی طرف سے بغیر مزاحمت کے طالبان کو قبضہ کرنے دینا اور مقامی لوگوں کی طرف سے بلا چون و چرا طالبان کو خوش آمدید کہنا، یہ سب باتیں ماضی سے مختلف ہیں۔ واقعات و شواہد اس بات کے عکاسی ہیں کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر متوقع تو ہے مگر اچانک نہیں ہوا ہے، اس کے پیچھے بھی کوئی سوچ کارفرما ہے۔ اگر امریکی فوج نے غلطی سے اسلحہ اور گولہ بارود طالبان کے حوالے کیا ہے تو یہ نہ صرف اس کی فاش غلطی ہے بلکہ اس کی شرمناک شکست کا ثبوت بھی ہے کیونکہ یہ غلطی تاریخ میں اسلحہ چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ جانے سے تعبیر کی جائے گی اس لئے یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کے لئے ناقابل یقین ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر امریکہ نے کسی اعلانیہ یا خفیہ معاہدے کے تحت افغان طالبان کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی، تاوان یا ازالے کے طور پر اپنا اسلحہ اور ساز و سامان انکے حوالے کیا ہے تو یہ افغانستان میں ایک مستقل خانہ جنگی کی بنیاد ہے جو اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہے گی اور اس سے کوئی بچ نہیں پائے گا حتٰی کہ امریکہ خود بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
ایک تیسرا امکان جو تجزیے سے زیادہ سازشی تھیوری کے زمرے میں آتا ہے وہ یہ کہ امریکہ کی طالبان کے ساتھ کوئی ڈیل ہو چکی ہے کہ وہ روس کے بعد چین کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس سازشی تھیوری کو طالبان کے چین اور وسطی یشائی ممالک کی سرحدوں سے ملحق بدخشان اور دیگر صوبوں میں بغیر مزاحمت کے کنٹرول حاصل کرنے سے بھی تقویت ملتی ہے۔ اگر اس سازشی تھیوری کے پیچھے کوئی صداقت ہے تو پھر مستقبل میں پاکستان کی مشکلات میں زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے لئے چین سے دوستی کا دم بھرنے اور امریکہ سے منہ موڑنے میں کسی ایک کا انتخاب مشکل مرحلہ ہوگا۔ دونوں کو ساتھ ساتھ چلانا بھی اتنا آسان نہیں ہوگا جب امریکہ کے بعد چین ’ڈو مور‘ منترا کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اگر اس سازشی تھیوری کے پیچھے صداقت کا تھوڑا بہت بھی شائبہ ہے تو سب سے زیادہ مشکل میں چترال اور گلگت بلتستان خاص طور پر بالائی غذر اور ہنزہ کے لوگ ہوں گے جن کے ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی طرح روندے جانے کے امکانات زیادہ ہیں جس کے اشارے بھی پچھلے ایک عرصے سے مل رہے ہیں۔
طالبان کے افغانستان میں دیگر ممالک خاص طور پر چین کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں پیش قدمی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان خاص طور پر شاہراہ قراقرم پر مسلح جتھوں کی رونمائی اور ریاستی اداروں کی خاموشی سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ شاید ایک بار پھر بین الاقوامی طاقتیں اس خطے میں اپنا جال بچھانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ شاید اسی لئے اب پشاور شہر کے پوش علاقوں میں بھی افغان طالبان نے دندنانا شروع کر دیا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں تاریخ کے اسباق بھی کافی تلخ ہیں۔ صرف امریکہ کی تاریخ ہی بے وفائی، بے رخی اور خود غرضی سے بھری ہوئی نہیں بلکہ افغانوں نے بھی خانہ خدا میں حلف لے کر اس کی پاسداری نہیں کی اور پاکستان نے بار بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی ہمیشہ امریکہ اور افغانستان طالبان دونوں پر اعتبار کیا ہے۔ لیکن لیکن جواب میں اسے ہمیشہ الزامات کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایسے ہی الزامات کو رد کرتے ہوئے وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے وائس آف امریکہ کو ایک خصوصی انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ نہیں ہے اور امریکہ افغانستان سے نکل کر اسی غلطی کا ارتکاب کررہا جو 90 کی دہائی میں کی گئی تھی۔ لیکن معید یوسف نے یہ حتمی وعدہ کرنے سے انکار کیا کہ طالبان نے اگر طاقت کے زور پر کابل پر حملہ کرکے اپنی حکومت قائم کی تو اسے قبول کیا جائے یا نہیں۔ حالانکہ پاکستان بار بار یہ اعلان کرتا رہا ہے کہ تشدد کے نتیجہ میں قائم ہونے والی کوئی حکومت قابل قبول نہیں ہوگی۔ تاہم اب طالبان کے بزور اقتدار پر قبضہ کرنے کی صورت میں انہیں تسلیم کرنے کے سوال پر معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’ اس حوالے سے جب وقت آئے گا تو بتائیں گے‘۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اسی قسم کے غیر واضح اشارے اس کے اصل ارادوں کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اس پر ڈبل کے گیم کھیلنے کا الزام لگتا ہے جس کی ایک واضح مثال پشاور میں افغان طالبان کے حق میں ہونے والی بڑی ریلی ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ افغان طالبان کے طاقت پکڑنے سے تحریک طالبان پاکستان بھی مضبوط ہوگی جس سے ملک میں دہشت گردی کی کی ایک نئی لہر آنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

Back to top button