عارف نقوی کے ابراج گروپ بارے نئے حقائق کیا ہیں؟

کنگسٹن یونیورسٹی لندن کے حقوق انسانی کے سابق پروفیسر، برطانوی حکومت اور اقوام متحدہ کے مشیر اور درجنوں کتابوں کے مصنف پروفیسر Brian Brivati نے اپنی نئی کتاب The Life and Death of Abraaj Group میں برطانیہ کی جانب سے امریکہ کے حوالے کئے جانے والے معروف پاکستانی بزنس مین عارف نقوی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے اسباب کے پر روشنی ڈالی ہے اور کئی نئے انکشافات کیے ہیں۔
انھوں نے اپنی کتاب میں عارف نقوی کے بارے میں ان حقائق کی نقاب کشائی کی ہے جن سے مغربی میڈیا اب تک چشم پوشی کرتے ہوئے عارف نقوی کو ایک لٹیرا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اپریل 2019 میں وزیراعظم عمران خان کے دوست سمجھے جانے والے عارف نقوی کا ابراج گروپ دیوالیہ ہوگیا تھا اور اس پر چوری اور سازش کے الزامات عائد کردیئے گئے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، غیر ملکی میڈیا عارف نقوی کے بارے میں ایک ہی سٹوری پر اڑا ہوا ہے، اور وال سٹریٹ جرنل جسیم امریکی اخبارات اس ہراپیگنڈہ میں پیش پیش ہیں۔
لیکن پروفیسر بریان بریویٹی نے اپنی نئی کتاب میں اب تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے۔ پروفیسر بریان بریویٹی نے حقوق انسانی کے پہلو سے عارف نقوی کے بارے میں ملنے والے شواہد کی بنیاد پر پوری کہانی بیان کی ہے۔ انھوں نے مغربی میڈیا کے برعکس صرف اکزامات۔لگانے کے بجائے تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے عارف نقوی کا باقاعدہ انٹرویو کیا ہے اور اس کو بالکل کسی لگی لپٹی کے بغیر کتاب میں شامل کردیا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں عارف نقوی کے بارے میں بہت زیادہ حوالے شامل نہیں کئے ہیں اور اس میں کوئی مرچ مصالحہ بھی شامل نہیں کیا بلکہ انتہائی متوازن انداز میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔
پروفیسر بریویٹی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ابراج گروپ پر مجرمانہ سازش کرنے اور عارف نقوی پر دھوکے بازی کے الزامات بے بنیاد ہیں اور انکا آغاز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہوا تھا۔
ابراج گروپ اور اسکے سربراہ عارف نقوی کے حوالے سے بریویٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے چین سے مخاصمت کے باعث کراچی الیکٹرک کی چینی ادارے شنگھائی الیکٹرک کو فروخت روکنے کے لیے ابراج گروپ کے خلاف ایک منظم سازش کی۔ امریکی انویسٹرز اور تب کی امریکی انتظامیہ اور وال سٹریٹ جرنل کے مبینہ گٹھ جوڑ کے باعث نہ صرف ابراج گروپ زوال کا شکار ہو گیا بلکہ 2019 میں نقوی کو برطانیہ میں گرفتار کر لیا گیا اور اب امریکی حکومت انہیں اپنے ملک لیجا کر مقدمہ چلانے کے لئے پرتول رہی ہے۔
پروفیسر بریویٹی کے مطابق ابراج گروپ کی کہانی ایک جیو پولٹیکل کہانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابراج کو اصل میں ایک بڑا مالی دھچکہ لگا تھا، اور اس نے خود کو تباہ نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابراج گروپ کے دیوالیہ ہونے کے پیچھے بہت سے عوامل تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اراج گروپ والے وہ فراڈیئے تھے، جنھوں نے کوئی فراڈ نہیں کیا تھا۔ دراصل ابراج گروپ کے کچھ امریکی سرمایہ کاروں نے فنڈز کی منیجمنٹ پر سوال اٹھائے تھے۔ ابراج گروپ نے اپنی پوزیشن کلئیر کرتے ہوئے ان سب لوگوں کی رقوم سود کے ساتھ واپس کردی تھیں، کیونکہ وہ مستقبل میں بھی ان سرمایہ کاروں کے ساتھ کاروبار جاری رکھنا چاہتا تھا۔ پروفیسر برائن لکھتے ہیں کہ ابراج گروپ والے وہ چور تھے، جنھوں نے اپنے قانونی حقوق اور تنخواہ تک نہیں لی، یہ ایسے اچھے چور تھے، جن کی وجہ سے سرمایہ کار آج بھی اپنے سرمائے سے منافع کما رہے ہیں اور ان کی رقم کہیں بھی ضائع نہیں ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس نام نہاد ریکیٹیر کی کمپنی جب ختم ہوئی تب بھی وہ خالی خولی نہیں تھی بلکہ اس کے اثاثے اس کے واجبات سے کہیں زیادہ تھے۔ انکے مطابق ابراج گروپ دراصل ایک ماڈل کارپوریٹ سٹیزن تھی اور 2016 کے آخر تک ایک کامیاب ترین کمپنی تھی۔
یاد رہے کہ برطانیہ میں میٹروپولیٹن پولیس نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو سرمایہ کاروں سے دھوکہ دہی کے الزام میں 12 اپریل 2019 کو لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے گرفتار کیا تھا اور اب انہیں ایک گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان کے قریبی دوست سمجھے جانے والے عارف نقوی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے سب سے بڑے شراکت دار رہے ہیں۔ دو سال قبل عارف نقوی کے ساتھی عبدالودود کو بھی امریکہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں پر ہزاروں ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کا غلط استعمال کرنے کا۔الزام عائد کیا گیا تھا۔ امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت پر یہ کارروائی کی گئی تھی لیکن ان پر لگائے گئے الزامات ابھی تک ثابت نہیں ہو پائے۔
دوسری جانب عارف نقوی اپنے خلاف لگے ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں کہ انھوں نے ابراج ایکوٹی سےفنڈز کو ٹرانسفر کر کے کوئی غیر قانونی کام کیا۔ اب امریکی حکومت ایکویٹی فرم بیٹھ جانے پر برطانیہ سے ان کی حوالگی لینا چاہتی ہے تاہم ابھی تک برطانیہ ایسا کرنے سے انکاری ہے۔
برطانوی حکومت کے کنسلٹنٹ پروفیسر بریویٹی نے عارف نقوی سے انٹرویو کرنے اور ابراج گروپ سے جڑے تنازعات پر تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انویسٹرز اور میڈیا کے ساتھ مبینہ گٹھ جوڑ کرکے ابراج گروپ اور عارف نقوی کو مالی مشکلات سے دوچار کیا۔ اس مبینہ سازش کا بڑا مقصد اس گروپ کی ملکیتی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی یعنی کے الیکٹرک کی چین کے ادارے شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کی کوشش ناکام بنانا تھا۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے کھلے دشمن جانے جاتے ہیں۔ چین دشمنی میں ٹرمپ کے مبینہ اقدامات سے عالمی سطح کا ایک بڑا انویسٹر گروپ ابراج اپنی بقا کی جنگ لڑی رہا ہے۔

Back to top button