عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد چندہ آدھا کیوں ہو گیا؟

عبدالستار ایدھی کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے بتایا ہے کہ والد صاحب کی وفات کے بعد سے اندرون اور بیرون ملک سے ایدھی فاؤںڈیشن کو ملنے والے چندے کی رقم میں نمایاں کمی آگئی ہے۔ یاد رہے کہ معروف فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی اور عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی پانچ برس پہلے آٹھ جولائی 2016 کو انتقال کر گے تھے۔ لگاتار 40 سال بغیر کسی چھٹی کے کام کرنے کا عالمی ریکارڈ بنانے والے ایدھی کے انتقال پر سرکاری طور پر ایک دن سوگ کا اعلان کیا گیا۔
مادر ملت فاطمہ جناح کے بعد ایدھی دوسری غیر سرکاری شخصیت تھیں جنہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ ان کی وفات پر تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ ایدھی کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ اور چاہنے والوں کی زندگیوں میں تو ایک خلا آیا ہے، لیکن ان کی فلاحی تنظیم پر اس کے سب سے اثرات پڑے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک سے ملنے والے چندے کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی۔
عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے بتایا کہ ان کے والد کے انتقال کے بعد سے مختلف بیرونی ممالک سے ایدھی فاؤںڈیشن کو ملنے والے چندے کی رقم میں کمی آگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں برطانیہ سے جو چندہ ملتا تھا، وہ ان کے انتقال کے بعد آدھا ہوگیا ہے۔ اسکے علاوہ اندرون ملک سے بھی چندہ ملنا کم ہوگیا ہے’۔
فیصل ایدھی نے بتایا کہ وہ انتظامی طور پر ایدھی فاؤنڈیشن کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اقدامات کر رہے ہیں، اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آنے والے پانچ سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن کی مالی حالت بہتر ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ عبدالستار ایدھی نے زندگی سے ہاتھ دھونے والے ایک راہگیر کو غسل دے کر فلاح و بہبود کا کام شروع کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں کراچی میں کسی کے قتل یا زخمی ہونے کی خبر ملتی تو زخمی یا مقتول کو ریڑھی پہ ڈال کر لے ہسپتال لے جاتے۔ جھاڑیوں، ندی نالوں سے ملنے والی وہ لاشیں جس کی تاب ورثا بھی نہیں لا پاتے تھے، ایدھی صاحب اپنے گھر پر انہیں غسل دیتے اور انکی تجہیز و تکفین کا انتظام کرتے۔ بعد ازاں جب ایدھی فاؤنڈیشن ایک بڑا ادارہ بن گئی تو عبدالستار ایدھی نے اس کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلا دیا اور اور بلوچستان کے دور دراز مقامات تک پہنچ گئے۔
فیصل ایدھی کے مطابق: ’بلوچستان میں کبھی بھی کچھ ہوتا تو عبدالستار ایدھی واحد شخص تھے جو سب سے پہلے وہاں پہنچتے تھے۔ وہ بلوچستان کی ایسی جگہوں پر بھی جاتے تھے، جہاں پہنچنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ سڑکیں بھی نہیں ہوتی تھیں اور چار پانچ دن تک ان سے رابطہ بھی نہیں ہو پاتا تھا، ہم ڈر جاتے تھے کہ وہ کہاں چلے گئے؟‘ فیصل ایدھی نے اپنے والد کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دس سال قبل بلوچستان میں کنڈ ملیر کے نزدیک نانی کے مندر سے اندر کی جانب کچے راستے پر واقع ٹانچ کے علاقے میں زہریلے کھانے سے اموات کا ایک واقعہ ہوا جس میں 15 سے 20 لوگ مر گئے اور سینکڑوں بیمار ہوگئے۔ ایدھی وہاں ڈاکٹروں کی ٹیم اور ادویات لے کر گئے، مگر پھر ہمارا ان سے رابطہ منقطع ہوگیا، کوسٹ گارڈز کی مدد سے ان کی تلاش شروع کی گئی تو وہ واپسی کے راستے میں ملے۔‘
جہاں اکثر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر، انجنیئر یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، وہیں ایدھی نے نہ صرف اپنے بیٹے فیصل ایدھی بلکہ پوتے سعد ایدھی کو بھی بچپن سے انسانیت کی خدمت کرنے کی تربیت دی اور ان میں فلاحی کاموں کا شوق جگایا۔ فیصل ایدھی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی مگر بعد میں اپنے والد کے مشن کو جارے رکھنے کا عہد کیا۔ فیصل اور اب ایدھی خاندان کی تیسری نسل کے فرد سعد ایدھی بھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
20 جون 1998 کو پیدا ہونے والے سعد کے شناختی کارڈ کے مطابق ان کا پورا نام عبدالستار ایدھی محمد سعد ہے جو ایدھی مرحوم نے خود رکھا تھا۔ سعد اِس وقت کراچی کی ایک یونیورسٹی سے بزنس مینجمنٹ میں بیچلرز کے طالب علم ہیں۔ 2005 میں شمالی پاکستان اور کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں عبدالستار ایدھی سات سالہ سعد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ بھی فلاحی کاموں میں حصہ لے سکیں۔ سعد نیپال کے زلزلے میں بھی امدادی کام کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ حال ہی میں شام میں جاری جنگ میں متاثرہ خاندانوں کی مدد کرنے بھی جانا چاہتے تھے لیکن انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی۔
سعد کہتے ہیں ‘میں نے جیسے آنکھ کھولی، اپنے والد فیصل ایدھی اور دادا عبدالستار ایدھی کو فلاحی کام کرتے دیکھا تو اب فلاحی کام نہ صرف میرا شوق بلکہ جنون ہے اور میں یہ کام پوری عمر کرتا رہوں گا۔’ وہ اس وقت ایدھی ایمبولینس کے مواصلاتی کنٹرول اور ایدھی میرین سروس کو سنبھالتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی فلاحی کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سعد امید کرتے ہیں کہ ایدھی فاؤنڈیشن ایک مرتبہ پھر اپنی معاشی حالت کو بہتر بناتے ہوئے اسی مقام تک پہنچ جائے گی جہاں وہ ایدھی صاحب کی زندگی میں پہنچی تھی۔