عمران امریکہ کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں یا ترلے؟

جہاں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کی جنگ میں اس کا اتحادی نہ بننے کے اعلان کو سراہا جا رہا ہے وہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید ایسے بیانات کے ذریعے وہ وہ بائیڈن انتظامیہ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ انکے ساتھ رابطہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یاد رہے کہ چھ ماہ پہلے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک امریکی صدر بائیڈن نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا جس کا اظہار وہ خود ایک انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ شاید صدر بائیڈن بہت زیادہ مصروف ہیں لیکن وہ جب بھی ان سے رابطہ کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔
ہاد رہے کہ 30 جون کو قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ایک دھؤاں دار تقریر میں امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستان اب اسکی کسی جنگ میں حصہ دار نہیں بنے گا بلکہ صرف امن میں شرکت دار بنے گا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے ان کے مشورے پر عمل کیا ہے۔ تاہم ماضی قریب کی پالیسیوں پر شرمساری، غم و غصہ اور لعن طعن کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم نے امریکہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی کہ صدر بائیڈن فوری طور پر مجھ سے رابطہ کریں ورنہ میں مزید ناراض ہو جاؤں گا۔
یاد رہے کہ عمران خان کی قومی اسمبلی میں ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی تقریر ان کی پارلیمنٹ میں پہلی ایسی تقریر تھی جو ہنگامہ آرائی یا شور شرابے کی نذر نہیں ہوئی اور اپوزیشن نے اسے انتہائی پرسکون انداز میں سنا۔
وزیراعظم کی ایوان میں تقریر جسے وزرا ان کے کیریئر کی بہترین تقریروں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس میں انہوں نے سال 2014 کے بعد کی جانے والی تقریباً ہر تقریر کی طرح اپوزیشن پر الزامات یا تنقید نہیں کی بلکہ ایک سلجھے ہوئے پارلیمانی رہنما کی طرح کا طرز تخاطب استعمال کیا۔شاید یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن نے بھی اسے اچھے بچوں کی طرح سنا اور چند اپوزیشن ارکان نے تو ان کی تقریر کے دوران ڈیسک بجا کر داد بھی دی۔
اس کے پیچھے شاید سپیکر اسد قیصر اور دونوں اطراف کے پارلیمانی رہنماؤں کی بھی کاوش تھی جنہوں نے وزیراعظم کی تقریر سے قبل ایک اجلاس میں طے کیا تھا کہ اگر وزیراعظم تقریر کو بجٹ اور حکومتی اقدامات تک محدود رکھیں گے اور اپوزیشن کو نشانہ بنانے سے گریز کریں گے تو ان کی تقریر میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
تقریر کے دوران عمران خان نے پہلی بار اپوزیشن کو ساتھ چلنے کی کھل کر دعوت دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی پیش کش کی۔ انہوں نے جہاں مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا شکریہ ادا کیا وہیں امریکہ اور مغربی ممالک کے پاکستان کے ساتھ رویے پر شدید نکتہ چینی بھی کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’کون سا اتحادی اپنے دوست ملک کے اندر ڈرون حملے کرتا ہے، پاکستان نے امریکہ کے لیے 70 ہزار سے زائد جانوں اور اربوں ڈالر کی مالی قربانی دی مگر بدلے میں امریکہ نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے دوغلا قرار دیا۔‘ وزیراعظم کی تقریر کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے چند اراکین اسمبلی ڈیسک بجا کر داد دیتے رہے. انہوں نے کہا کہ ’پاکستان امریکہ کا امن میں شراکت دار تو ہو سکتا ہے مگر تنازعے میں نہیں۔‘ انہوں نے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی امریکہ نوازی پر بھی شدید تنقید کی۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم کی تقریر کے بعد ان کے حامیوں نے تو حسب سابق تعریفوں کے پل باندھ دیے مگر غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے بھی ان کی تقریر کو سراہا۔ صحافی اجمل جامی نے لکھا کہ ’پاکستان کی حالیہ پارلیمانی سیاست میں یہ یقیناً ایک انتہائی اہم اور معنی خیز پیش رفت ہے، کپتان اپوزیشن کے بارے میں روایتی اپروچ سے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے مجموعی طور پر دو قدم آگے جانے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا جواب دلچسپ اور اہمیت کا حامل ہوگا۔‘
سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ تین برسوں میں پہلی بار اپوزیشن کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے بامقصد بات چیت کی دعوت، جواباً اپوزیشن کی مکمل خاموشی، شور شرابا نہ ہلڑ بازی، یہ معجزہ کیسے ہوا۔؟ کیوں ہوا۔۔؟ کسے داد دی جائے۔۔۔؟‘ اپوزیشن کی اچانک خاموشی پر بھی دلچسپ تبصرے دیکھنے میں آئے۔ ڈان اخبار سے منسلک صحافی خلیق کیانی نے لکھا کہ بالآخر عمران خان نے اپوزیشن ممبران کو اچھے بچے بنا دیا۔ اے آر وائی سے منسلک صحافی صابر شاکر نے لکھا کہ ’نیا پاکستان نیا عمران خان نئی اپوزیشن۔ پاکستان زندہ باد
عدیل احسن نامی صارف نے لکھا کہ ایسی عوامی تقریر نہ کسی آنکھوں نے دیکھی نہ کسی کانوں نے سنی، کمال کردیا عمران خان صاحب۔
تاہم کچھ سوشل میڈیا صارفین بجلی کی بندش کی وجہ سے عمران خان کی تقریر کے باوجود ان سے ناراض ہی نظر آئے۔
افشاں مصعب نامی صارف نے لکھا کہ ’خان صاحب آپ کی برسوں پرانی تقریر کی اب اتنی بھی اہمیت نہیں رہی کہ ملک بھر میں اس ’میں میں میں‘ کے دوران لوڈشیڈنگ نہ ہو ۔بلکہ عوام پر احسان ہے کہ بجلی بند کرکے اس عذاب سے نجات دی گئی۔