عمران اور ترین کی صلح کے امکانات ختم کیوں ہو گئے؟


باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شوگر سینڈل میں جہانگیر ترین کو ہر صورت رگڑا دینے اور جیل بھجوانے کا عندیہ ملنے کے بعد ترین اور کپتان کی صلح کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ ترین گروپ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ان کے قائد جہانگیر ترین کے تینوں مطالبات رد کر دیئے ہیں لہذا اب وہ بھی جوابی وار کے لیے اشارے کے منتظر ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ گرین سنگل ملتے ہی پہلے بزدار حکومت گھر بھجوائی جائے گی اور پھر کپتان کی کرسی ہلانے کا کام شروع ہو گا۔
سنیئر کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری اپنے تازہ تجزیئے میں کہتے پیں کہ جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کے بقول کپتان نے انہیں سرخ جھنڈی دکھا دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بیرسٹر سید علی ظفر کی رپورٹ بھی ترین کے حق میں تھی مگر وزیراعظم نے یہ اسے ماننے سے انکار کر دیا اور ہمیں پیغام دے دیا گیا کہ آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں کر لیں، این آراو نہیں ملے گا۔ ترین گروپ کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کو جہانگیر ترین کی گرفتاری کا حکم دیا جا چکا ہے اور صرف مناسب موقعے کا انتظار ہے کیونکہ عمران انھیں ہر صورت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتا ہے۔ لہذا ترین گروپ نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسا اتنی آسانی سے نہیں ہونے دین گے۔
جاوید چودھری کے مطابق ترین گروپ کا کہنا ہے کہ انکے قائد کے جیل جانے کے بعد ہم لوگ عثمان بزدار کا ساتھ چھوڑ دیں گے جسکے بعد پنجاب حکومت ختم ہوجائے گی۔ دوسری اسٹیج پر ہم سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ چیلنج کریں گے۔ ہمیں یقین ہے سپریم کورٹ ہماری پٹیشن سنے گی اور اگر ترین کی نااہلی کا فیصلہ کالعدم ہو گیا تو ہم انھیں کسی بھی حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوا کر پارلیمنٹ میں لے آئیں گے اور اپنی نئی سیاسی جماعت بنائیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم سب الیکٹ ایبلز ہیں اور الیکٹ ایبلز ہمیشہ ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں اس لئے ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی ہمیں سپورٹ کرے گی۔
جاوید چوہدری کے بقول جہانگیر ترین اپنے سابق کپتان سے تین مطالبات کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان پر جتنے الزامات لگے ہیں وزیراعظم ان کو چیک کرلیں، انہوں نے کوئی منی لانڈرنگ نہیں کی۔ ترین کہتے ہیں کہ میں نے آج تک جتنی رقم باہر بھجوائی یا پاکستان لے کر آیا، ایک ایک پیسے کی منی ٹریل موجود ہے۔ جہانگیر ترین وہ منی ٹریل اپنے ہم خیال گروپ اور وزیراعظم کے نامزد کردہ ثالث بیرسٹر علی ظفر کے سامنے بھی پیش کر چکے ہیں۔ علی ظفر اور جہانگیر ترین کی اس معاملے پر لاہور اور اسلام آباد میں آدھ درجن ملاقاتیں ہوئیں جن میں ان کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی شامل ہوتے تھے۔ علی ظفر باآواز بلند ایف آئی آر کا پیرا پڑھتے تھے اور شبر زیدی اس پیرا گراف کو غلط ثابت کرنے کے لیے تمام ثبوت سامنے رکھ دیتے تھے۔ انکامکہنا یے کہ تمام کاغذات ناقابل تردید تھے اور اس زمانے کے تھے جب جہانگیر ترین اپوزیشن میں تھے۔ لہٰذا ترین کا پہلا مطالبہ اپنی کرپشن کے ثبوت دینا ہے۔ ترین کا کہنا ہے وزیراعظم نے راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں ملوث ذلفی بخاری اور غلام سرور خان کو جتنا موقع دیا، مجھے بھی خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا اتنا ہی چانس دے دیں، میں اگر خود کو کلیئر نہ کروا سکا تو بے شک مجھے گرفتار کرا دیں۔
جہانگیر ترین کا دوسرا مطالبہ کریمنل مقدمات ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھ پر لگے الزامات اگر سچ بھی ہیں تو بھی مجھ پر کریمنل کیسز نہیں بنتے۔ مجھ پر زیادہ سے زیادہ سول مقدمات بن سکتے ہیں یا ایف بی آر یا ایس ای سی پی میرے خلاف تحقیقات کر سکتے ہیں اور میں نے اگر غلط کیا ہے تو یہ ادارے مجھ پر جرمانہ کر سکتے ہیں۔ ترین کے بقول میری گرفتاری تو کسی طور نہیں بنتی، انکا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں کریمنل کیسز شریف لوگوں کو بے عزت کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور پھر ان کی نسلیں عدالتوں میں جوتے گھساتی رہتی ہیں۔ ترین کہتے ہیں کہ میرے سابق دوست بھی مجھے صرف حوالات اور جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مجھے تین چار ماہ رگڑا لگے اور پھر بے شک ضمانت ہو جائے لیکن میں اس کے باوجود پانچ سات سال عدالتوں میں دھکے کھاتا رہوں، ترجن مشرف دور میں عمران خان پر بننے والے اینٹی اسٹیٹ ایکٹوٹیز مقدمات اور نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ حملہ کیس کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں دونوں حکومتوں نے کپتان پر کریمنل کیسز بنائے اور یہ دونوں مقدمات عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ختم ہو گے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مجھے بھی اپنے خلاف جھوٹے مقدمات سے نکلنے کے لیے وزیراعظم بننا پڑے گا؟
جاوید چودھری کے مطابق ترین چاہتے ہیں حکومت کو اگر ان کے ثبوتوں پر اعتماد نہیں تو میرے کیس ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے حوالے کر دے اور یہ ادارے تحقیقات کے بعد فیصلہ کریں، لیکن انہیں کریمنل کیسز کے ذریعے ذلیل کرنا بہت بڑی زیادتی ہے ۔ ترین کا تیسرا مطالبہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے خلاف کیسوں کی سماعت کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اگر میرے پہلے دونوں مطالبے منظور نہیں ہیں تو بے شک میرے خلاف مقدمات چلنے دیں لیکن ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرائیں۔ وہ ایف آئی اے کو ہدایت کر دیں کہ عدالت سے نہ ان کا وکیل غائب ہو گا اور نہ ہی کوئی تاریخ لے گا۔ حکومت ثبوت اور گواہ پیش کرے اور مجھے اپنے گواہ اور ثبوت پیش کرنے دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ جاوید کا کہنا ہے کہ جب ترین کے حامیوں سے پوچھا جائے کہ کیا ان کے قائد نے چینی سکینڈل میں پیسے نہیں بنائے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر بالفرض وہ مجرم ہیں تو کیا صرف ترین ہی سبسڈی اور چینی کی قیمت بڑھنے کے بینی فشری ہیں۔ اگر دوسرے لوگ بھی بینی فشری ہیں تو کیا ان کو گرفتار کیا گیا یا ان کے خلاف کریمنل کیسز بنائے گئے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ ترین کے خلاف تو مقدمات بنا دیے گے لیکن اس کے باوجود چینی کی قیمت نیچے کیوں نہیں آئی؟ اگر ذمے دار ترین تھے تو ان کی فائل کھلنے کے بعد چینی کی قیمت نیچے آ جانی چاہیے تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے چینی مہنگی ہونے کے پیچھے ترین کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ یہ سراسر حکومت کی مس مینجمنٹ ہے۔
چنانچہ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ان حالات میں عمران اور ترین کے مابین صلح کا کوئی امکان باقی نہیں بچا خصوصا جب وزیراعظم نے ترین کے مطالبات ماننے اور علی ظفر رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

Back to top button