عمران خان نے تحریک انصاف کو فساد اور انتشار کی علامت کیوں بنا دیا ؟

اڈیالہ جیل میں بند عمران خان 5 اکتوبر کو اپنی سالگرہ منا رہے ہیں، لیکن آج ان کی سیاسی زندگی پر ماضی کی کامیابیوں کے بجائے ملک دشمنی کے الزام کی پرچھائیاں گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان کی انتشار اور فساد کی سیاست ہے جسے وہ اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پاکستان کو احتجاج اور دھرنوں سے مسلسل عدم استحکام کا شکار کر رہے ہیں۔

عمران خان کی احتجاجی سیاست کا فوری مقصد جیل سے باہر انا ہے جسکے بعد ان کا اگلا ہدف موجودہ حکومت کو گرا کر اقتدار میں آنا ہو گا۔ لیکن تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں نہ تو عمران کے جیل سے باہر انے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی وہ اقتدار حاصل کر پائیں گے۔ ایک وقت تھا جب ماضی کی فوجی اسٹیبلشمینٹ عمران خو تبدیلی اور امید کی علامت سمجھتی تھی، اسی لیے انہیں "پراجیکٹ عمران خان” کے تحت 2018  میں بد ترین دھاندلی کروا کر وزیراعظم بھی بنوایا گیا تھا، لیکن یہ عسکری تجربہ بری طرح ناکام ہوا اور فوج اسے آج دن تک بھگت رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جیل میں بند عمران خان اپنی جان بچانے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے مسلسل فساد اور انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب وہ کسی نہ کسی شہر میں احتجاج یا مظاہرے کی کال نہ دیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت احتجاج اور انتشار کی سیاست کر رہے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب تک ملک میں سیاسی انتشار رہے گا، معیشت بھی مستحکم نہیں ہو پائے گی اور جب معیشت تباہ ہوگی تو اس کا براہ راست اثر حکومت پر پڑے گا۔

کچھ تجزیہ کار تو یہ سمجھتے ہیں کہ آج عمران کے ہاتھوں ملک کے ساتھ جو بھی غلط ہو رہا ہے اس کی بنیادی ذمہ داری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر آتی ہے جس نے اسے بنایا اور پھر اقتدار دلوایا۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت 2010 کی دہائی میں تب بڑھائی گئی جب ائی ایس ائی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے پراجیکٹ عمران شروع کیا۔ اس کے بعد یہ پراجیکٹ ائی ایس ائی کے اگلے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے حوالے کیا گیا۔ اس پراجیکٹ کو کامیاب کروانے اور عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کا سہرا جنرل قمر جاوید باجوا اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے سر بندھا۔ 2018 میں عمران خان کے قتدار میں آنے کو اسٹیبلشمینٹ نے روایتی سیاسی اشرافیہ کے خلاف ایک بڑی فتح کے طور پر اجاگر کیا۔ تاہم، عمران خان کی بطور حکمران نااہلی جلد عیاں ہو گئی اور موصوف ہائیبرڈ نظام حکومت کے باوجود اسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بوجھ بن گئے جو انہیں اقتدار میں لائی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب کپتان نے جنگلی سانڈ کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو باجوا اور فیض کی مدد سے روندنے کے بعد باجوہ اور اس کی اسٹیبلشمنٹ کا رخ کیا۔ تاہم یہ ایک سنگین غلطی ثابت ہوئی اور وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہو گئے۔

2022 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان کا رویہ اور حکمت عملی ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہے، اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد سے، عمران خان نے مسلسل تصادم کی سیاست اپنائی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ جمہوری عمل کو تسلیم کرتے، انہوں نے اس بیانیے کو فروغ دیا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہوئی جس میں فوج اور امریکہ ملوث تھے۔ تاہم اج امریکہ عمران کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور موجودہ حکومت کے خلاف امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد منظور کروا رہے ہیں۔ پاکستان نے عمران کے مضحکہ خیز سازشی دعوے کو مسترد کیا، لیکن عمران خان کے گمراہ حامیوں نے اس بیانیے پر یقین کر لیا اور خان کے ساتھ کھڑے ہو گے۔ یوں ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہنگامے شروع ہو گئے، اور پھر نو مئی کا سانحہ بھی رونما ہو گیا۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کا رویہ عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے پر مرکوز ہے۔ عمران خان نے قومی بحرانوں کے دوران بھی اپنی سیاسی لڑائی کو جاری رکھا ہے۔ 2022 میں جب پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کو امدادی سرگرمیوں پر ترجیح دی۔ بجائے اس کے کہ وہ ملک کو متحد کرتے، انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سیلاب کے بحران کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے رپورٹ کیا کہ سیاسی انتشار، جو زیادہ تر عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے پیدا ہوا، پاکستان کی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا۔ اسی طرح معاشی بحران کے دوران بھی عمران خان کی توجہ مسلسل احتجاج پر رہی، انہوں نے مسلسل عالمی مالیاتی ادارے پر دباؤ ڈالا کہ پاکستان کو دیے جانے والے قرض کو ان کی رہائی سے مشروط کیا جائے۔

عمران کی احتجاج اور دھرنوں کی پالیسی مسلسل ناکام کیوں رہی ہے؟

معاشی ماہرین کے مطابق عمران خان کے پیدا کردہ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے حکومت کے لیے ضروری اصلاحات کا نفاذ مشکل بنا دیا ہے۔ خان کی سیاست نے غیر یقینی صورتحال کو بڑھا دیا ہے، جس سے سرمایہ کار دور ہو رہے ہیں اور معیشت کی بحالی کا عمل مزید مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تشویشناک بات عمران کا عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کے ساتھ کھلا ٹکراؤ ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر مسلسل بے بنیاد الزامات نے ان دونوں اداروں سے ذیادہ عمران کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ وہ آج ایک الزام لگاتے ہیں اور دوسرے دن اس کے الٹ بات کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطانق عمران خان کے الزامات اور انتشاری سیاست نے سول اور فوجی قیادت کے درمیان پہلے سے نازک توازن کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ انکا کہنا یے کہ خان کی مسلسل محاذ آرائی سے اہم ریاستی ادارے کمزور ہو رہے ہیں، اور اس کے طویل المدتی نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ عمران کی حالیہ سیاست سے پاکستان کے جمہوری اداروں پر اعتماد متزلزل ہوا ہے، اور ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے جمہوری نظام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایسے میں عمران خان کی سالگرہ کے موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی میراث کیا ہوگی؟ کیا وہ ایک ایسا رہنما بن کر ابھریں گے جس نے تبدیلی لائی، یا ایک ایسا سیاستدان جو ذاتی مفادات کی خاطر ملک میں تقسیم کا باعث بنا؟ ان کی سیاسی طاقت بے شک ابھی بھی برقرار ہے، لیکن ان کی تصادم کی حکمت عملی نے پاکستان کی سیاسی اور معاشی استحکام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ درحقیقت اس وقت پاکستان کو یکجہتی اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، عمران خان کی مخالفت کرنے والی قوتوں کا ماننا ہے کہ انکی انتشاری سیاست ملک میں تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔

Back to top button