عمران خان کو ترین کے خلاف کس بات کا غصہ ہے؟


شوگر سکینڈل میں ایف آئی اے کی جانب سے اپنے خلاف کارروائی شروع ہونے کے بعد سے جہانگیر خان ترین زگ زیگ پالیسی اپناتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور تحریک انصاف کے تیس ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے باوجود ابھی تک انہوں نے کپتان کے خلاف کھلم کھلا اعلان بغاوت نہیں کیا ہے۔ ترین عمران خان کے خلاف براہ راست کوئی الزام لگانے کی بجائے ابھی تک یہی موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ وزیر اعظم کو غلط اطلاعات پہنچا کر ان کے خلاف کیا جارہا ہے۔ سیانے ترین آگے ایک طرف تو عمران خان کی تحریک نصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب انکی حکومت پر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ وہ انکے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔ ترین کا موقف یے کہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں اور ان کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ ترین یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ ان کو دوست ہی رہنے دیا جائے، دشمنی پر مجبور نہ کیا جائے۔ اس دوران تحریک انصاف میں موجود ترین کیمپ سے یہ آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ انہیں مذید دبایا گیا تو پھر ترین اپنی پارٹی کے شیخ مجیب بھی بن سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے اب تک جو پالیسی اپنائی ہے اس کا بنیادی مقصد وزیراعظم عمران خان کو بہت ذیادہ ناراض کیے بغیر اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ ایف آئی اے کو انکے خلاف کارروائی اگے بڑھانے سے روک دیں۔ بصورت دیگر وہ کپتان کو یہ باور بھی کروا رہے ہیں کے اگر انکے خلاف کارروائی نہ رکی تو پھر مجبور ہوکر انہیں دوست کے ساتھ دشمنی نبھانا پڑ جائے گی۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے 14 مارچ کو جہانگیر ترین کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ترین کا موقف سننے کو تیار ہیں لیکن شوگر سکینڈل میں عوام کا اربوں روپے لوٹنے والے مافیا کے خلاف کارروائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک گروپ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ جہانگیر ترین کی بات سنی اور ان کے خلاف انتقامی کاروائی کا نوٹس لیں۔ اس خط کا بنیادی مقصد وزیراعظم عمران خان کو یہ باور کروانا تھا کہ اگر جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی کو روکا نہ گیا تو پھر ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور ایک فراڈ بلاک بھی تشکیل پا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی دونوں حکومتیں بہت کم اکثریت کے ساتھ قائم ہیں اور اگر جہانگیر ترین کے حمایتی ساتھی کپتان کا ساتھ چھوڑ دیں تو دونوں حکومتیں گر سکتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان ترین کے حوالے سے جو بھی کہیں لیکن اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ انہیں اس معاملے پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ تجزیہ کار یاد دلواتے ہیں کہ ماضی قریب میں بھی عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے انہی ممبران قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا تھا جنہوں نے سینٹ الیکشن میں پارٹی سے بے وفائی کرتے ہوئے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ چنانچہ یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب تک کی صورتحال اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ جہانگیر ترین انتہائی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنی سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کے الیکشن میں اپنے ساتھی اراکین اسمبلی کے بل بوتے پر کپتان کے امیدوار کو شکست سے دوچار کروایا جسکے نتیجے میں عمران خان کے پاس ایوان سے پھر اعتماد کا ووٹ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سولہ ارکان اسمبلی گیلانی کو ووٹ دے کر اپنی ہی حکومت کو چونا لگا گے تھے۔ اس الیکشن کے بعد وزیراعظم عمران خان کو ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی کہ ترین نے ڈبل گیم کھیلتے ہوئے نہ صرف گیلانی کو سینیٹ الیکشن میں ووٹ دلوائے بلکہ انہیں سیاسی رابطوں کے لیے اپنا طیارہ بھی فراہم کیے رکھا۔
دوسری جانب ترین کا دعوی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے زیر استعمال طیارہ ان کا نہیں بلکہ مخدوم احمد محمود کا تھا۔ تاہم اس دوران عمران خان شوگر سکینڈل میں ترین کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا حکم جاری کر چکے تھے۔ دوسری جانب ترین کے قریبی ساتھی اور ممبر قومی اسمبلی راجہ ریاض کے مطابق حفیظ شیخ کی بدترین شکست کے بعد اعتماد کے ووٹ کے لئے وزیر اعظم نے ترین کو لودھراں سے اسلام آباد بلوایا اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو فون کروائے گئے۔ پھر کہیں جا کر عمران خان کو ایوان میں اعتماد کے لئے مطلوبہ ووٹ ملے۔ راجہ ریاض کی بات مان لی جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اگر ترین وزیراعظم کے ووٹ کے لیے متحرک نہ ہوتے اور فون کالز نہ کرتے تو شاید وہ سولہ ارکان اسمبلی جنہوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا تھا، وہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ نہ دیتے تو انکے اقتدار کا صفحہ پھٹ جاتا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو کہ ریاست مدینہ کے داعی ہیں، وہ ابھی تک ان سولہ ارکان قومی اسمبلی کا نام تک زبان تک نہیں لا سکے جو کہ ان کے امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ نہ دے کر ان کو اعتماد کا ووٹ لینے تک کی نوبت تک لے گئے تھے۔
ترین کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انکے خلاف سینٹ الیکشن کے دوران فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا تھا لیکن جونہی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا تو نہ صرف ترین کے خلاف بلکہ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کے خلاف بھی مقدمات درج کر لیے گئے۔ شاید ایسا کر کے عمران خان اپنی طاقت دکھانے کے موڈ میں ہیں کہ ترین اگر ان کی حکومت کی جگ ہنسائی کا ساماں پیدا کر سکتا ہے تو وہ بھی حساب برابر کر سکتے ہیں۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ شوگر سکینڈل میں ترین کے خلاف کاروائی کا اونٹ بالآخر کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کیا عمران اہنے سابقہ دوست جہانگیر ترین سے سمجھوتہ کرتے ہیں یا ڈٹے رہتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button