عمران خان کو سائفر ڈی کلاسیفائیڈ کرنے سے کیسے روکا گیا؟

پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے دعووں کے بر عکس یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ عمران حکومت کے آخری دنوں میں کچھ اجلاسوں میں سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے تجویز تو ضرور دی گئی لیکن اعلی ترین عہدے داروں کی مخالفت پر ایسا نہیں ہو سکا ۔ کابینہ کے یہ اجلاس اس وقت ہوئے تھے جب عمران خان عوامی ریلی میں سائفر کی کاپی لہرا کر دکھا چکے تھے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور اس کی لیگل ٹیم کا اصرار ہے کہ پوری کابینہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائی کیا تھا اور اسی وجہ سے سائفر میں موجود معلومات کو ’’خفیہ‘‘ نہیں کہا جا سکتا، سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں متعین پاکستانی سفیر کی جانب سے وزارت خارجہ کو بھیجے گئے 7؍ مارچ 2022ء کے سائفر کو کبھی ڈی کلاسیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی اور اس کے ماہرین قانون کی ٹیم کا دعویٰ کرتی ہے کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کر دیا گیا تھا۔ تاہم، سائفر کیس کی چھان بین اور کابینہ اجلاسوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کا کہنا ہے کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں کچھ اجلاسوں میں سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے متعلق باتیں ہوئی تھیں لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ کابینہ کے یہ اجلاس اس وقت ہوئے تھے جب عمران خان عوامی ریلی میں سائفر کی کاپی لہرا کر دکھا چکے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ یہ معاملہ وزارت قانون میں بھی بھیجا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے وزارت قانون نے بھی اس خفیہ دستاویز کو منظر عام پر لانے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم، بعد میں کابینہ نے سائفر کی نقل صرف صدر مملکت، چیف جسٹس پاکستان، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کی منظوری دی۔ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کی تجویز پر کابینہ کا پہلا اجلاس 30؍ مارچ 2022ء کو یعنی عمران خان کی جانب سے سائفر کی کاپی لہرا کر دکھانے کے تین دن بعد ہوا اس اجلاس میں ڈی کلاسیفکیشن کی مخالفت کی گئی۔ ایک دن بعد عمران خان کابینہ نے پھر ان کیمرا اجلاس میں اس تجویز پر بات کی لیکن صرف چار اعلیٰ ترین عہدیداروں کو سائفر کی کاپی دینے کی منظوری دی گئی ۔ تاہم، پی ٹی آئی اور اس کی لیگل ٹیم کا اصرار ہے کہ پوری کابینہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائی کیا تھا اور اسی وجہ سے سائفر میں موجود معلومات کو ’’خفیہ‘‘ نہیں کہا جا سکتا، اس لیے پی ٹی آئی چیئرمین کے ان کیمرا ٹرائل کا جواز نہیں بنتا، یہ کیس جعلی اور من گھڑت ہے۔ سائفر کیس میں سینئر وکیل اور استغاثہ ٹیم کے سربراہ شاہ خاور نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سائفر کو کبھی ڈی کلاسیفائی کیا گیا اور نہ کابینہ نے ایسا کوئی فیصلہ کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر کہا کہ فارن آفس اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرے گا کیونکہ یہ عدالت میں زیر سماعت ایشو ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے اپنے بیان میں کہ چکے ہیں کہ اسلام آباد کے جلسے سے قبل ایک میٹنگ میں پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ وہ سائفر کو عوام کے سامنے ایک مخصوص انداز سے پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ان کیخلاف مقامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر سازش کی جائے گی اور وہ اس بات کو مظلوم (وکٹم کارڈ) بن کر پیش کریں گے۔ اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے اور اس کے مندرجات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور نہ عوام میں اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی سابق وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی سائفر گمشدگی کیس میںرواں سال اگست سے زیرحراست ہیں ان کے خلاف خصوصی عدالت نے فرد جرم بھی عائد کر دی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ٹرائل کورٹ کی تمام کاروائی کالعدم قرار دے دی تھی جس کے بعد کیس پر کا روائی کا دوبارہ آغاز 28 نومبر سے ہو گا

Back to top button