عمران خان کی آستینوں میں کون سے سانپ چھپے ہیں؟

آج اگر ہم تحریک انصاف کی حکومت کا تجزیہ کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ وزیر اعظم عمران خان سیاسی میچ کھیلنے کی بجائے اپنے مخالفین کو اسٹیڈیم سے اٹھا کر باہر پھینکنے میں مصروف ہیں۔ عمران خان اور انکے ساتھی سیاسی میدان کے ایسے مصطفی قریشی بن چکے ہیں جو کسی سلطان راہی کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، چاہے وہ کوئی شخص ہو یا ادارہ، حالانکہ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سلطان راہی کے قتل کے بعد مصطفی قریشی کا کیریئر بھی ختم ہوگیا تھا۔
ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور اینکر پرسن جاوید چوہدری نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 9 جنوری 1996 کی رات اسلام آباد سے لاہور کا سفر کرتے ہوئے ایک اندھیری سڑک پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں سلطان راہی قتل ہوا تو اسکے نتیجے میں مصطفی قریشی بھی ختم ہو گیا تھا کیونکہ دونوں کا وجود ایک دوسرے کا مرہون منت تھا۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آج مصطفی قریشی کی عمر 81 برس ہے، وہ 1996 تک ایک ستارہ بن کر چمک رہے تھے لیکن جونہی سلطان راہی غروب ہوا، دنیا مصطفی قریشی کو بھی بھول گئی اور وہ بھی قصہ پارینہ بن گے۔ لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر عمران خان اپنی اپوزیشن کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی اپنی حکومت کا وجود بھی برقرار نہیں رہ پائے گا اور وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ ہم زندگی میں لوگوں سے نفرت کرتے ہیں،ہمارا لوگوں کے ساتھ مقابلہ بھی ہوتا ہے، یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ انسان ایک ایسا جانور ہے جسے ہر لمحہ دشمن چاہیے ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے ہمارے مخالف اکثر اوقات ہماری بقا بن جاتے ہیں۔ ہم ان کی وجہ سے بڑے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک بڑے رہتے ہیں جب تک ہمارے دشمن سلامت رہتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں دنیا کی کوئی بھی اسپورٹس ہو یہ ہمیشہ دو ٹیموں کے درمیان کھیلی جاتی ہے، میدان میں اگر ایک ٹیم نہیں آئے گی تو دوسری بھی نہیں کھیل سکے گی۔
جاوید چودھری کے مطابق کھیل میں جب تک ہارنے والا نہیں ہوتا جیتنے والا بھی نہیں ہوتا لہٰذا آپ اگر جیتنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے مخالف کا وجود بھی ماننا پڑتا ہے اور اس کی عزت بھی کرنا پڑتی ہے کیوں کہ اگر وہ میدان چھوڑ جائے گا یا آپ کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دے گا تو پھر آپ بھی جیت نہیں سکیں گے اور اگر فرض محال ریفری آپ کو فاتح قرار دے بھی دے تو بھی آپ کی فتح‘ فتح نہیں ہوگی۔ انکا کہنا یے کہ تحریک انصاف اس وقت تین قسم کے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے پرانے اور جینوئن ورکرز جو شروع دن سے پارٹی کے ساتھ ہیں۔ یہ ورکر ماضی میں ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں مار کھاتا تھا اور یہ آج اقتدار کی گلیوں میں اپنی پارٹی سے کوڑے کھا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے دل دکھی اور جذبات زخمی ہیں۔ پی ٹی آئی میں دوسری قسم کے لوگ ان پارٹیوں کا جلا ہوا سالن ہیں جن کو عمران خان روز ملک کی تباہی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ حکومت کی ساٹھ فیصد کابینہ آج ان لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک عمران خان کو معمولی کھلاڑی‘ تانگہ پارٹی اور فیس بک لیڈر کہتے تھے اور عمران خان انھیں اپنا چپڑاسی رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ آپ جس دن تحقیق کریں گے آپ کو آج کے ہر سیاسی فساد کے پیچھے یہ لوگ ملیں گے۔ یہ اپنی پرانی پارٹیوں سے شرمندہ بھی ہیں اور اپنے ماضی کے اسیر بھی ہیں چناں چہ یہ نہیں چاہتے عمران خان کبھی آصف زرداری، میاں شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بیٹھیں۔ آپ خود سوچیے عمران خان جس دن بلاول بھٹو یا آصف زرداری سے ملاقات کے لیے جائیں گے تو وہ فواد چوہدری جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے پولیٹیکل افیئرز اور انفارمیشن کے معاون خصوصی تھے، وہ شاہ محمود قریشی جو آصف زرداری کو اپنا لیڈر اور بلاول کو جناب چیئرمین کہتے تھے، وہ فہمیدہ مرزا جو آصف زرداری کی بہن بنی ہوتی تھیں، وہ فخر امام جن کی اہلیہ عابدہ حسین محترمہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک میں سوار ہوتی تھیں، ان پر کیا بیتے گی۔
وہ بابر اعوان جنھوں نے اپنا وکالتی لائسنس داؤپر لگا لیا تھا لیکن آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کورٹ کو خط نہیں لکھا تھا اور وہ اعظم سواتی جو مولانا فضل الرحمن کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، کیسے عمران، شہباز اور زرداری کو اکٹھے بیٹھے دیکھنا چاہیں گے؟ لہٰذا ان سب کی بقا اسی میں ہے کہ یہ وزیراعظم کو اپوزیشن اور اپوزیشن کو وزیراعظم کے قریب نہ آنے دیں اور یہ آج تک اس میں کام یاب ہیں۔
جاوید چودھری کہتے ہیں کہ میں آج دعوے سے کہتا ہوں یہ ملک اگر خدانخواستہ ٹوٹ بھی گیا تو بھی یہ لوگ عمران خان کو اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیں گے۔ انکے مطابق پی ٹی آئی میں تیسرے قسم کے لوگ چھاتہ بردار ہیں۔ یہ کمال لوگ ہیں، یہ ہر پارٹی کو نصیب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور عرب ملکوں کے باسی ہوتے ہیں لیکن جب وہاں کوئی کمال نہیں کر پاتے تو مختلف سیاسی قائدین کے خدمت گزار بن جاتے ہیں، جب یہ قائدین حکومت میں آ جاتے ہیں تو یہ لوگ اپنی خدمات کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بقول جاوید چودھری عمران خان کی حکومت بھی اس وقت بری طرح ان چھاتہ برداروں کے نرغے میں ہے۔ یہ لوگ پتا نہیں کیسے اور کہاں سے آئے اور سیدھا وزیراعظم کے کان تک پہنچ گئے اور ان میں زہر گھولنا شروع کر دیا۔
جاوید چودھری کے مطابق وزیراعظم کے یہ مشیر تین کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ عمران خان کی میڈیا سے جنگ کروا رہے ہیں۔ ان کے مشیروں نے پہلے وزیر اعظم کے ذریعے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی کوشش کی، پھر پاکستان میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی کا بل متعارف کرایا اور یہ آج کل وزیراعظم کو بتا رہے ہیں کس اینکر کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے، ہمیں لائیو شوز میں کیا کرنا چاہیے، کس شخص کو کس شو میں بھجوانا چاہیے اور اسے کس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ انکا کہنا ہے کہ یہ لوگ اب وزیر اعظم کی عدلیہ سے لڑائی کرانا چاہتے ہیں۔ یہ انھیں بار بار بتا رہے ہیں کہ عدالتیں سیاسی مجرموں کی ضمانت لے لیتی ہیں لہٰذا ہمیں انھیں پابند کرنا ہوگا۔ اسکے علاوہ یہ لوگ حکومت کی الیکشن کمیشن سے لڑائی کرانا چاہتے ہیں اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب افغانستان سے امریکی فوج واپس جا رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو مسلسل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن افغانستان سے افواج کے انخلاء کے وقت بھی ہمارے وزیراعظم کو ’’کر ٹسی کال‘‘ کے قابل نہیں سمجھ رہے۔
جاوید کہتے ہیں اس نازک وقت میں ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ حکومت کو میڈیا‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے لڑایا جا رہا ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن تک موجود نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے اور اس عالم میں اگر ادارے بھی لڑ پڑے تو سوچیں پھر کیا ہوگا؟ اس لرائی کا کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہو گا، آپ خودفیصلہ کر لیجیے۔
جاوید کہتے ہیں کہ میں 1992میں صحافت میں آیا تھا، میں نے اس دوران 12حکومتوں کی رعونت دیکھی اور پھراس رعونت کو خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتے بھی دیکھا لیکن آپ یقین کریں میں جتنا ان لوگوں کو خدا کے لہجے میں بولتا ہوا دیکھ رہا ہوں، اتنا غرورمیں نے آج تک کسی حکومت میں نہیں دیکھا تھا، لیکن ان کی پرفارمنس دیکھیں تو انسان سر پکڑ لیتا ہے ان کے دعوے سنیں تو ہنسی نکل جاتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں یہ لوگ جب تخت سے اتریں گے تو تب ان کی انا، تکبر اور رعونت لوگوں کا سامنا کیسے کرے گی؟ اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم کرے لیکن ہم تیزی سے کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں کیوں کہ قدرت انسانوں اور قوموں کے سارے جرائم معاف کر دیتی ہے لیکن تکبر معاف نہیں کرتی اور پاکستان اس وقت اکڑی ہوئی گردنوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے، قدرت آخر یہ کب تک برداشت کرے گی؟ کبھی تو سیٹی بجنی ہے اور کبھی تو کراؤڈ نے حدیں پھلانگ کر میدان میں آنا ہے،ذرا تصور کیجیے تب کیا ہوگا؟