عمران خان ہمیشہ اپنے دوستوں کو دشمن کیوں اور کیسے بنا لیتے ہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے عمران خان کے بارے ایک استعاراتی کالم لکھتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں دشمن بنانے کا شوق ہے، حالانکہ سیاست تو زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کا دھندہ ہے مگر خان صاحب کو اس فن سے نفرت ہے اور انہیں دشمن بنانے میں مزہ آتا ہے، اسی لیے ان کے آج کے سارے دشمن کبھی انکے دوست ہوا کرتے تھے۔ اب موصوف فرما رہے ہیں کہ میں نے اپنی پارٹی سے سارے بزدل نکال دینے ہیں کیونکہ یہ بھی میرے دشمن ہیں، ان کا موقف ہے کہ میں دشمن سازی سے ہی جنگ جیت کر دکھاؤں گا، خان صاحب کا موقف ہے کہ میں ہٹلر یا مسولینی نہیں ہوں، میں راسپوٹین بھی نہیں، میں ایک روحانی اور دیومالائی دیوتا ہوں، لہٰذا ستارے اور روحانیت میری مدد کو آئیں گے۔ اسی کیے میرا انجام ہٹلر، مسولینی یا راسپوٹین جیسا المناک نہیں ہو گا بلکہ تابناک ہو گا، آپ بس دیکھتے جائیں، بالآخر آخر میں ہی جیتوں گا۔

سہیل وڑائچ نے اپنی استعاراتی تحریر عمران خان کا نام لیے بغیر کچھ یوں لکھی ہے: "مہاتما بدھ نے میرے لیے ہی کہا تھا ’’تمہارا بدترین دشمن تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا تمہاری اپنی بلا غور و فکر کی سوچیں‘‘۔ میں تو مشہور امریکی گلو کار فرینک سناترا کے اس قول کی عملی تفسیر بھی ہوں ’’تم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہو‘‘۔ میں دشمن بنانے میں ماہر ہوں، دشمن سازی کا ایک اپنا ہی مزہ ہے، دوست بنانے کا کیا فائدہ ؟میں یا تو اپنی زندگی میں ہاتھ بندھے غلام چاہتا ہوں یا پھر ہر وہ شخص میرا دشمن ہے جو مجھ سے ذرا سابھی اختلاف کرے۔ جب میں سو فیصد یقین رکھتا ہوں کہ میں ہی ٹھیک ہوں تو پھر میرے لیے لازم ہے کہ میں بظاہر دوستی کرنے والوں کو ،جو مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں ،اصل میں اپنا دشمن سمجھوں۔ کوئی صحافی ہو یا سیاستدان، کوئی فوجی ہو یا بیوروکریٹ اسے میرا دوست بننا ہے تو اسے اختلاف کا کوئی حق نہیں۔ جو دوست مجھ سے اختلاف کرے اور سمجھانے پر بھی نہ مانے، اس سے میری کھلی جنگ ہے۔ وہ جج جو مصلحت سے چلے، وہ صحافی جو دونوں فریقین پر تنقید کرے، وہ بیورو کریٹ جو ہر پارٹی کی حکومت میں کام کرے، وہ سیاسی ورکر جو آنکھیں بند کرکے پارٹی پالیسی پر نہ چلے، وہ کارکن جو پارٹی کے کہنے پر دوسروں کو گالیاں نہ دے، پتھر نہ مارے، اور دوسروں کو بے عزت نہ کرے، مجھے ہر گز پسند نہیں۔ میری نظر میں یہ سب لوگ منافق ہیں، حق ایک طرف ہوتا ہے لہٰذا انہیں جہاد کیلئے میرا ساتھ دینا چاہیے، انہیں گومگو کی کیفیت سے نکلنا چاہیے، میرے وہ بزدل دوست اور ساتھی جو لڑ نہیں سکتے، اور مفاہمت کی بات کرتے ہیں ان سے چھٹکارا پانا اب ضروری ہو چکا ہے کیوں کہ میں جیل میں ہوں اور وہ باہر ہیں۔

سہیل وڑائچ اپنے کالم میں عمران خان کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں: ایک زمانہ تھا کہ میں سب کا ہیرو تھا، کیا جج، کیا جرنیل، کیا جرنلسٹ، کیا سیاست کار، سب میرا دم بھرتے تھے، ہر کوئی میرے کرشمہ ساز شخصیت کے سحر میں مبتلا تھا، بیرون ملک آباد رہنے والے پاکستانی تو مجھ پر تب بھی مرتے تھے اور آج بھی، انہوں نے مجھے دیوتا کا درجہ دے دیا، میں واقعی اپنے کردار اور مرتبے کی حیثیت سے اس کا اہل ہوں۔ اگر خواتین میری ایک جھلک پر فدا ہو جاتی ہیں تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ میں یونانی دیوتاؤں کا پرتو ہوں۔ ایک طرف مجھ پر حسن اور کرشمے کی بارش جاری ہے تو دوسر جانب مجھے روحانی دنیا کی سب سے بڑی پیرنی کا ساتھ میسر آ گیا، اب تو میں دیومالائی شہزادہ اور سب سے بڑا مرشد ہوں۔ دشمن میرا کیا کرسکتے ہیں، میرے ارد گرد روحانی حصاراور پہرہ ہے، مجھے روحانی طور پر پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آپ کی فوج اور جنرل باجوہ سے لڑائی ہوگی، مشکل وقت آئے گا مگر اس کے بعد آپ کو پوری طاقت اور اختیار کے ساتھ اقتدار ملے گا۔ لہٰذا ابھی میرا مشکل وقت چل ہے لیکن جب وقت بدلے گا تو میں اپنے دشمنوں سے گن گن کر بدلے کوں گا، میں ان میں سے کسی ایک کو بھی بچ کر نہیں جانے شوں گا چاہے وہ کوئی بھی ہو، اس جنگ میں قدرت میرا ساتھ دے گی، میری روحانی ہم سفر بھی میری پشت پر ہوگی اور اقتدار بھی میرا یو گا، بس میرا ووٹ دوبارہ آنے ہی والا ہے۔

آئینی ترمیم کے لیے حکومت مولانا پر بھروسہ کیوں نہیں کرنا چاہتی؟

سہیل وڑائچ عمران خان کے بارے اپنے استعاراتی کالم میں مزید لکھتے ہیں: "اپنے لشکر میں واحد بہادر اور دلیر انسان میں ہی ہوں ۔میرا گوہر نایاب بھی بزدل نکلا، میرا سرحدی شیر بھی جارحانہ انداز نہیں اپنا سکا، میرا ابن ایوبی بھی ماٹھا نکلا ہے، آ جا کر ڈیرے دار گنڈا پور ہی میرے انقلابی راستے پر چل رہا ہے۔ وہ بھی میری طرح دشنام، گالی، اور دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے کا ایجنڈا۔لیکر چل رہا یے چونکہ عوام اسی سے خوش ہوتے ہیں۔ میرے سارے دشمن ہیں ہی اس قابل کہ انہیں گالیاں دی جائیں۔ مجھے فخر ہے کہ آج ایک پورا گروہ دشنام اور گالی کی تربیت حاصل کر چکا یے۔ یہ لوگ آخر مجھے درست سمجھتے ہیں تبھی تو ایسا کرتے ہیں، اب تو صورتحال یہ ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہمدردی کرے یا ہماری حمایت کرے، لیکن ماضی میں اس نے اگر ہم سے اختلاف کیا ہے تو وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں، اب ہمارا اخلاقی پیمانہ اتنا بلند ہو گیا ہے کہ فرشتہ بھی آجائے اور ہماری چھلنی سے گزرے تو اس کی غلطیاں بھی عیاں ہو جائیں گی۔ کیا قاضی، کیا جج، وہ سو الیکشن کروانے میں بھی ہماری مدد دیں، وہ ہمارے دشمن ہی رہیں گے۔ ہماری پالیسی سادہ سی ہے، یا آپ ہمارے حق میں ہیں یا ہمارے خلاف ہیں، درمیان والوں کو ہم دشمن ہی سمجھتے ہیں۔

سہیل وڑائچ مزید لکھتے ہیں: ایک زمانہ تھا جب سارے عین میرے تابعدار ہوتے تھے، عثمان بزدار، عارف علوی، عمران اسماعیل وغیرہ۔ سارے عین قمری اعداد کے اعتبار سے ہمارے لیے ’’اچھے‘‘ تھے لیکن اب یہی عین کبھی عاصم منیر کی شکل میں اور کبھی عاصم ملک کے روپ میں ہمارے لیے ’’مبارک‘‘ نظر نہیں آتے، میرے ستارے الٹی چالوں پر آ گئے ہیں، اسی لیے 9 مئی کو نجوم اور روحانیت نے بھی میرا ساتھ نہیں دیا۔ علم دست شناسی کے ماہر صادق ملک نے بتایا ہے کہ جنرل عاصم منیر کے ہاتھ پر ڈبل راجہ یوگ ہے اور ان کے مقدر کی لکیر بہت مضبوط اور پختہ ہے، جب کہ میرے ہاتھ پر بھی ڈبل راجہ یوگ ہے لیکن میرے مقدر کی لکیر شکستہ ہے اور ان دِنوں اس میں ایک جزیرہ بھی بن چکا ہے جو مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے، مگر مجھے بتایا گیا یے کہ آگے جا کر یہ جزیرہ ختم ہو جاتا ہے اور میرے مقدر کی لکیر دوبارہ سے توانا ہو جاتی ہے، یعنی مجھے پھر اقتدار مل سکتا ہے، مگر فی الحال میں جزیرے میں قید ہی نظر آ رہا ہوں۔

’’بشری‘‘ میری ریڈ لائن بن چکی ہے ہے ۔جنرل باجوہ نے ایک بار مجھے وزارت عظمی کے دوران مفت کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے روحانی ہمسفر کو ریاستی امور پر مشوروں میں شریک نہ کروں۔ اس پر میں نے موصوف کو ترت جواب دیا کہ آئندہ ایسی بات نہ کرنا چونکہ بشری میری ریڈ لائن ہے۔ جب جنرل عاصم نے مجھے بشری اور فرح شہزادی کے کارناموں کے کچھ ثبوت دکھائے تو میں نے اسی روز اسے بھی اپنا دشمن ڈیکلیئر کر دیا ۔ وقت کا قاضی بھی آج میرا دشمن ہے حالانکہ اپنے خلاف نا اہلی کا صدارتی ریفرنس دائر ہونے سے پہلے وہ میری عزت کرتا تھا۔ لیکن یاد رہے گنڈا پور میری توپ ہے اور بیرسٹر ظفر میرا تیر ہے، میں اپنے اسی اسلحے سے جنگ جیتوں گا، میرے ستارے ٹھیک ہو لینے دیں، میں پھر سے پاکستان پر چھا جاؤں گا۔ کیا ہوا جو میں عدالت میں جنگ ہار گیا، کیا ہوا جو میں 9 مئی کو انقلاب نہیں لا سکا، کیا ہوا جو اسلامی دنیا سے میرے حق میں آواز نہیں اٹھی، یہ سارے بزدل ہیں، ٹرمپ کو آ لینے دیں، پھر دیکھنا یہ دنیا بدل جائے گی۔ تب میں سب  جرنیلوں، ججوں، جرنلسٹوں اور جگے سیاستدانوں کو ایسا تگنی کا ناچ نچاؤں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجھے دشمن بنانے کا شوق ہے، حالانکہ سیاست زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کا نام ہے، لیکن مجھے اس سیاست سے نفرت ہے کیوں کہ مجھے دشمن بنانے میں مزہ آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کے میرے سارے دشمن کبھی میرے دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔

Back to top button