ریاست سے پنگا لینے والے عمران کو این آر او ملنے کا امکان ختم
تحریک انصاف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو بڑھانے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ریاستی مفادات کیخلاف ذاتی مفادات کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران احتجاج کی کال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت پر دباو بڑھا کر ہر صورت اپنے بانی چیئرمین کو ریلیف کے نام پر این آر او دلوانے پر بضد ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ احتجاجی سیاست سے دباو بڑھا کر جہاں وہ عمران خان کو جیل سے رہا کروانے میں کامیاب ہو جائے گی وہیں آئینی ترمیم کو متنازع بنا کر اسے روکنے ہوئے اعلی عدلیہ میں عمراندار چیف جسٹس کی تعیناتی کی راہ بھی ہموار کر لے گی۔
تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی سیاست کی حکمت عملی کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ حکومت نے پی ٹی آئی کی طرف سے ڈالے جانے والے کسی بھی دباو میں نہ آنے اور ایسے عناصر کیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور اس حوالے سے حکومت کو اسٹبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ اور تائید حاصل ہے۔
پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش میں آخری قسط تحریک انصاف کی ڈی چوک میں احتجاج کی کال تھی، جس کے باعث جڑواں شہروں میں نہ صرف نظام زندگی معطل رہا بلکہ پنجاب میں بھی موبائل فون سروسز میں تعطل نے عام لوگوں کے لیے پریشانی پیدا کی۔
ابھی اس احتجاج سے اُڑنے والی گرد بیٹھی ہی تھی کہ پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کے لیے اپنا نیا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی نئی کال کو حکومت اور اس کی حامی جماعتوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کےاجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ تاریخی طور پر پہلی مرتبہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں انڈیا بھی شرکت کر رہا ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے پنجاب کے بڑے شہروں میں 11 سے 14 اکتوبر تک احتجاج کی کال دے دی ہے۔مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی ایس سی او اجلاس سے پہلے یہ احتجاج کر کے حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے۔
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کھ دوران شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے وقت ہی پی ٹی آئی کے احتجاج کا آئیڈیا کس کا تھا؟ کیونکہ ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد حکومت نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے کسی بھی قسم کی ملاقات کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس لحاظ سے عملی طور پر عمران خان باہر ہونے والے معاملات سے بظاہر لاعلم ہیں۔ کیونکہ پابندی کی وجہ سے عمران خان کے وکلا کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
عمران کی غلط حکمت عملی نے حکومت اور فوج کو مزید قریب کیسے کیا ؟
اس سوال کا جواب جب پنجاب میں تحریک انصاف کے اپوزیشن رہنما ملک احمد بھچر سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا ہے۔ اور یہ جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے۔ پوری سوچ سمجھ کے ساتھ یہ کال دی گئی ہے اور اس احتجاج کی کال کو ہر صورت کامیاب بنایا جائے گا۔
یہ ہمارا بنیادی آئینی حق ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ایس سی او کے تناظر میں ہڑتال کی کال پی ٹی آئی کو مزید سیاسی تنہائی میں نہیں لے جائے گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی تنہائی میں جانے کا وقت تو اب فارم 47 کی حکومت کا ہے۔ ہم اس وقت سانس لینے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایس سی او کا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے پنجاب کے شہروں میں احتجاج سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ہم تو ایک فسطائیت کے خلاف نبرد آزما ہیں یہ سیاسی جدوجہد کرنا ہمارا حق ہے اس سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
‘انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں اور جی سیون جیسے اجلاسوں کے باہر لوگ احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ اور دنیا دیکھتی ہے۔ یہ ایک عوامی حق ہے جس کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تو محظ ایک ایشیائی تنظیم ہے۔‘
اپوزیشن لیڈر پنجاب سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر ایس سی او کے موقع پر ہی احتجاج کرنا مقصور ہے تو اسلام آباد کے بجائے پنجاب میں کال کیوں دی گئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے احتجاج کی حکمت عملی پہلے سے طے ہے۔ اور ہم بار بار کال دے رہے ہیں اور عوام ہمارے ساتھ نکل بھی رہے ہیں۔
ہمارا مقصد کسی اجلاس کو خراب کرنے کا نہیں بلکہ اپنی جدوجہد کو زندہ رکھنے کا ہے۔ اس لیے جو سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا اسی طرح شیڈول جاری کیا گیا۔‘
دوسری جانب پنجاب حکومت کی ترجمان عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں پر امن احتجاجی حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، تاہم جہاں بھی انتشار ہوتا ہے اسے دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ نہ امریکہ اور نہ برطانیہ۔۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک اںصاف ایک انتشاری ٹولہ ہے اور یہ احتجاج نہیں کرتے بلکہ مسلح ہو کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے جتھوں کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایس سی او کے موقع پر ان کو کسی قسم کا انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
تاہم پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی اور احتجاجی سیاست بارے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست میں اچانک تیزی کا مقصد آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومت کو دباو میں لانا ہے۔ ’وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آئینی ترمیم منظور ہو گئی اور سپریم کورٹ کے اختیارات تقسیم ہو گئے تو ان کی جدوجہد بہت لمبی ہو جائے گی۔ اس لیے وہ اپنی ساری طاقت کے ساتھ یہ دباو بڑھا رہے ہیں، تاکہ آئینی ترمیم کو متنازعہ کیا جا سکے جو کہ کسی حد تک ہو بھی چکی ہے۔ لیکن اگر یہ احتجاج پھیلتا ہے اور کوئی سنجیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے تو تحریک انصاف کو اس میں امید نظر آتی ہے۔ میرا خیال ہے اسی وجہ سے وہ بار بار احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔‘