غزہ پر نازل اسرائیلی عذاب کس اکیلے مسلم ملک نے رکوایا؟

سینئر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ غزہ پر نازل ہوئے عذاب میں چار دنوں کا جو وقفہ شروع ہوا ہوگا وہ بنیادی طورپر مسلم امہ کے کسی ادارے یعنی عرب لیگ یا او آئی سی کی کاوشوں سے نصیب نہیں ہوا۔ اس کا بندوبست فقط ایک ملک یعنی قطر کی انفرادی پیش قدمی سے ہواہے۔ نام نہاد اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ تعداد میں یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم انسان دوست افراد اسرائیل کی مذمت میں سڑکوں پر نکلے۔کئی دہائیوں سے مسلم امہ کے خود ساختہ ’مامے‘ بنے پاکستانیوں کی اکثریت 7اکتوبر کے بعد سے مناسب حد تک ’گفتار کے غازی‘ بھی نہیں بن پائی۔ نستر جاوید اپنے ایک کالم میں بتاتے ہیں کہ قطر دنیا کے دس امیر ترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔روس اور ایران کی طرح دنیا میں گیس کے ذخائر اس ملک کے پاس موجود ہیں۔اس کی قیادت نے گیس کی ترسیل کے نظام کو جدید ترین بناتے ہوئے عالمی منڈی میں گیس کے اجارہ دار کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے خود کو مستحکم کرنے کے لیے قطر نے 1990ءکی دہائی سے بہت مہارت کے ساتھ خود کو عالمی سیاست کا اہم ترین کردار بنانے کی گیم لگائی۔ خلیجی ممالک عموماً ’میڈیا دشمن‘تصور کیے جاتے تھے۔ قطر نے مگر ا لجزیرہ کے نام سے ایک ٹی وی چینل کا اجراءکیا۔ چند ہی دنوں میں وہ مصر سے عمان تک پھیلے عرب عوام کے حقیقی جذبات کا ترجمان بن گیا . میڈیا کی بدولت دنیا کو اپنی اہمیت کا احساس دلانا انگریزی میں اپنی معاشی قوت اور سیاسی اثر کو سافٹ یعنی نرم بلکہ ’نیویں نیویں‘ رہ کر اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ’الجزیرہ‘ ٹی وی نے قطر کو یقینا اس تناظر میں مو¿ثر ترین ملک بنادیا ہے۔ نصرت جاوید بتاتے ھیں کہ میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کے علاوہ قطر نے خود کو ’دہشت گردی کا حامی‘ کہلائے جانے کے خوف میں بھی مبتلا نہیں کیا۔ اس کے سفارت کار مسلم دنیا میں ’مذہبی انتہا پسند‘ کہلاتی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔اسی باعث صدر ٹرمپ کے عہد اقتدار میں جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا فیصلہ کرلیا تو قطر کے دارالحکومت دوحہ ہی کو طالبان سے مذاکرات کے لیے چنا گیا۔ پاکستان وہاں مذاکرات کے لیے بلایا محض ایک کردار ہی رہا جبکہ 1994ءسے امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیں طالبان کا ’واحد سرپرست‘ ٹھہراکر ہماری ریاست پر دباﺅ بڑھاتے رہے تھے۔
طالبان کی طرح قطر حماس کے کلیدی رہ نماﺅں سے بھی مسلسل رابطے میں رہا ہے۔ ان روابط کی بدولت ہی وہ تن تنہا حماس کا تقریباً نمائندہ بن کر 7اکتوبر سے امریکہ سے طویل مگر خفیہ مذاکرات میں مصروف رہاجس کے نتیجے میں بالآخر اسرائیل کو وحشیانہ بمباری میں وقفہ دینے کو مجبور کیا گیا ہے۔جس وقفے کا وعدہ ہوا ہے اس کے دوران مصر سے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے قافلوں کو داخلے کی اجازت ہوگی۔ انسانی امداد کے قافلوں کو ’راہداری‘ مہیا کرنے کے عوض ان دنوں آئی ایم ایف کے شکنجے میں آیا مصر تیل و گیس سے مالا مال قطر سے بھاری بھر کم امداد کی صورت ’بھتہ‘ وصول کرے گا۔ ’انسانی ہمدردی‘ مفت فراہم نہیں کی جائے گی۔ ’اسلامی یکجہتی‘ بھی اس تناظر میں کسی کام نہیں آئے گی۔ نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ قطر اور امریکہ کا اصل امتحان مگر ’وقفے‘ کے دوران ہی شروع ہوجائے گا۔چار دن کا وقفہ غزہ کی پٹی میں بجلی،پانی اور پٹرول جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاءکی فراہمی کے نظام کو بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہاں قائم ہسپتال بھی کھنڈر بنادیے گئے ہیں۔غزہ کی پٹی میں انسانی زندگی معمول کے مطابق بنانے کے لیے کامل جنگ بندی درکار ہے۔اسرائیل اس کے لیے اس وقت تک رضا مند نہیں ہوگا جب تک صہیونی بستیوں سے اٹھایا ہر مغوی خیروعافیت سے اسے لوٹا نہ دیا جائے۔ مغوی ہوئے افراد کے بدلے حماس اپنے بے شمار قیدیوں کو بھی اسرائیلی جیلوں سے باہر نکلواسکتی ہے۔ اس کے بعد بھی لیکن دائمی امن کا قیام ممکن نظر نہیں آرہا