فرانزک رپورٹ میں لونڈے باز مولوی کی شناخت ہو گئی
لاہور کے ایک مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کی ویڈیو کی فرانزک رپورٹ مکمل ہو گئی ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ اس میں نظر آنے والے اشخاص مفتی عزیز الرحمٰن اور صابر شاہ ہی ہیں۔ یاد رہے کہ جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور کینٹ کے مہتمم مفتی عزیزالرحمان کی لونڈے بازی کی ویڈیو مقدمہ درج ہونے کے بعد فرانزک تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوائی گئی تھی۔ اسکی فرانزک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو میں شخصی خدوخال طالب علم صابر اور ملزم عزیزالرحمٰن کے ہی ہیں، تاہم واقعہ پرانا ہونے کی وجہ سے مفتی کے ڈی این اے نمونوں کی جانچ نہیں ہو سکی۔
ڈی آئی جی انویسٹی گین لاہور شارق جمال کا کہنا ہے کہ فرانزک رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی جس سے مفتی عزیز پر لونڈے بازی کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مفتی عزیز نے اپنے فعل پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی تھی لیکن بعد ازاں اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا اور اس ویڈیو کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دے دیا۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ میں ملزم عزیزالرحمٰن کی شخصی شناخت تو کر لی گئی یے لیکن اسکے ڈی این اے کا نمونہ منفی آیا ہے۔ رپورٹ میں ڈی این اے کا نمونہ میچ نہ ہونے کی تین وجوہات بھی بتائی گئی ہیں جن میں بنیادی وجہ کیس کا بہت پرانا ہونا ہے۔
جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج جانے والے مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا ہے کہ پولیس اسے زبردستی دباؤ میں لا کر اعترافی بیان لینا چاہتی ہے اور یہ کہ اسکے خلاف مدرسے کی انتظامیہ نے سازش کی ہے۔ تاہم مدرسے کی انتظامیہ نے اس الزام کی پر زور تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی عزیز کو پتہ ہونا چاہئے کہ ان کی بد فعلی کی ایک نہیں بلکہ کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں جس میں وہ یہ قبیح فعل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
قبل ازیں 23 جون کو عدالتی حکم پر مفتی عزیزالرحمٰن کا پنجاب فرانزک ایجنسی سے ڈی این اے کرایا گیا تھا۔ خیال رہے کہ اپنے شاگرد سے بدفعلی کے ملزم کو پولیس نے 20 جنوری کو میانوالی سے دو بیٹوں سمیت گرفتار کیا تھا اور انہیں لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔
سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے ڈی ایس پی حسنین حیدر کی سربراہی میں ٹیم نے میانوالی میں چھاپہ مار کر مفتی عزیز الرحمٰن کو گرفتار کیا تھا۔ مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے مفتی عزیز الرحمٰن کے ایک بیٹے عتیق الرحمٰن کو کاہنہ کے ایک مدرسے جبکہ دوسرے بیٹے کو لکی مروت سے گرفتار کیا تھا۔ کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ مفتی عزیز کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جو مدرسے میں اپنے شاگردوں سے بدفعلی میں ملوث تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمان الطاف الرحمٰن اور عتیق الرحمٰن متاثرین کو ان کے والد مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف مقدمے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیوں میں بھی ملوث ہیں۔
یہ گھناؤنا واقعہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پنجاب انعام غنی کو ہدایت کی تھی کہ اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور ملزم کو انجام تک پہنچایا جائے۔ آئی جی پنجاب کا اس کیس پر کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ان جنسی استحصال کرنے والے مولوی حضرات سے محفوظ ہو جائیں اس لیے ملزم کو عبرتناک سزا دلوانا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ مدرسے میں طالب علم سے بدفعلی کے کیس میں گرفتار مفتی عزیزالرحمٰن نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس انوسٹی گیشن شارق جمال خان نے بتایا تھا کہ ملزم نے بغیر دباو کے یہ اعتراف کیا کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو اسکی ہے اور یہ چھپ کر بنائی گئی تھی۔ مفتی نے تفتیشی افسر کو بتایا تھا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسکے بیٹوں نے طالب علم کو دھمکایا اور اسے کسی سے بات کرنے سے روکا لیکن اس نے منع کرنے کے باوجود ویڈیو وائرل کردی۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق اس لونڈے باز مولوی کو سزا ملتی ہے یا وہ کیس میں قانونی کمزوریوں کی وجہ سے آزاد ہو جاتا ہے۔