فضائی آلودگی سونگھنے کی حس کی بھی دشمن نکلی
فضائی آلودگی کا ایک اورخطرناک پہلو سامنے آیا ہے جس کے بعد سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ کثیف اور گندی فضا میں طویل عرصے تک سانس لینے پر سونگھنے کی حِس متاثر ہونے کا خطرہ دوگنا ہوسکتا ہے۔
قوتِ شامہ یعنی سونگھنے کی حس قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس طرح غذائی عادات بھی متاثر ہوتی ہے اور بو اور گیس وغیرہ کوپہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سونگھنے کی حس ختم ہوجائے تو اسے طبی زبان میں اینوسمیا کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت کی وجہ سے مریض ڈپریشن کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے وابستہ مرگپن رامناتھن کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک سروے میں کئی افراد کو شامل کیا جن میں سے کئی افراد ٹریفک اور آلودگی والے علاقوں میں ایک عرصے سے رہ رہے تھے۔ اس تحقیق میں فضائی آلودگی کے سب سے خطرناک ذرات پی ایم (پارٹیکیولیٹڈ میٹر) 2.5 درجے کے ہوتے ہیں یعنی ڈھائی مائیکرون جسامت یا اس سے چھوٹے ذرات جو انسانی بال کی موٹائی سے بھی تیس درجے کم ہوتے ہیں۔ جب انسانوں کو مسلسل پی ایم 2.5 کا سامنا ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے ان کے سونگھنے کی حس متاثر ہوسکتی ہے۔ یعنی عام حالات کے مقابلے میں آلودہ فضا میں سانس لینے سے سونگھنے کی حس جانے کا خطرہ دوگنا بڑھ سکتا ہے۔ ان میں گردوغبار، راکھ، دھواں، کالک، نامیاتی مرکبات اور دھاتی ذرات ہوسکتے ہیں اور سب کے سب ڈھائی پی ایم کے دائرے میں ہوسکتے ہیں۔
سائنس سے ثابت ہوچکا ہے کہ پی ایم 2.5 بلڈ پریشر، عارضہ قلب اور دیگر کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ ڈاکٹر رامناتھن اور ان کے ساتھیوں نے 2690 افراد کا جائزہ لیا جن کی عمر 18 برس اور اس سے زائد تھی اور مسلسل تین برس تک ان جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے 538 سونگھنے کی حس سے محروم ہوگئے جن کی اوسط عمر 54 برس تھی اور اکثریت مردوں پر مشتمل تھی۔جب ان افراد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ سونگھنے کی حس کھونے والے اکثر افراد فضائی آلودگی کے اہم مقامات پر عرصے سے رہ رہے تھے۔