فوجی اڈا دینے پر پاک امریکا مذاکرات تعطل کا شکار

امریکا ستمبر تک افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان میں فوجی اڈے کے حصول کےلیے کوششیں کررہا ہے اسی سلسلے میں امریکی حکام کے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے تاہم امریکی اخبار کے ایک رپورٹ کے مطابق چند امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات فی الوقت تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ‘سی آئی اے’ نے اس سے قبل بھی شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے شروع کرنے کےلیے پاکستان میں ایک بیس کا استعمال کیا تھا، تاہم 2011 میں انہیں اس سہولت سے نکال دیا گیا تھا جب پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات خراب ہوئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چند امریکی عہدیداروں نے اخبار کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات ابھی تعطل کا شکار ہوچکے ہیں، دیگر نے کہا ہے کہ یہ آپشن اب بھی ٹیبل پر ہے اور معاہدہ ممکن ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے حال ہی میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے ملاقات کےلیے اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن کی بھی پاک فوج کے سربراہ سے افغانستان میں مستقبل میں امریکی آپریشنز کےلیے ان کی مدد حاصل کرنے کے بارے میں متعدد مرتبہ ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ولیم جے برنز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران بیس کا مسئلہ نہیں اٹھایا کیونکہ اس دورے میں انسداد دہشت گردی کے وسیع تعاون پر توجہ دی گئی تھی لیکن امریکی وزیر دفاع کے کچھ مباحثے زیادہ براہ راست رہے ہیں۔ امریکا کو اڈہ دینے میں پاکستان کی ہچکچاہٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ اسلام آباد حکومت کی جانب سے پاکستان کے کسی بھی بیس کو طالبان کے خلاف امریکی حملوں کےلیے استعمال کرنے کےلیے معاہدے پر دستخط کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے باوجود چند امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کسی بیس تک امریکی رسائی کی اجازت دینا چاہتا ہے تو وہ اس پر کنٹرول رکھے گا کہ اس کا استعمال کیسے ہوگا۔ اس رپورٹ میں گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں رہنے تک یہاں کسی امریکی بیس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سی آئی اے نے بلوچستان میں شمسی ایئربیس کا استعمال 2008 میں سیکڑوں ڈرون حملے کرنے کےلیے کیا تھا، ان حملوں کا مرکز بنیادی طور پر صرف پاکستان کے پہاڑی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے مشتبہ کارکن تھے لیکن انہوں نے افغانستان میں سرحد عبور بھی کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت نے عوامی طور پر یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ سی آئی اے کو آپریشنز کی اجازت دے رہی ہے اور وہ ایک نئے تعلقات کے ساتھ محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہے گی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پاکستانیوں نے ملک میں بیس کے استعمال کے بدلے میں متعدد پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ سی آئی اے یا فوج کے افغانستان میں کسی بھی اہداف پر حملے ان کی اجازت سے ہوں گے۔
دوسری جانب امریکا کو فوجی اڈا دینے کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا کو اڈے دینےکا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے امریکا کو فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کردیا ہے، فوجی اڈوں کی تلاش امریکا کی خواہش اور تلاش ہوسکتی ہے لیکن ہم نے اپنا مفاد دیکھنا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں، چاہتے ہیں کہ فوجی انخلا کے ساتھ امن عمل بھی آگے بڑھے، ہم افغانستان میں امن و استحکام کے خواہش مند ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا اب پاکستان کو مسئلے کا حصہ نہیں حل کا حصہ سمجھتی ہے، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ کچھ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ خطے میں امن ہو۔ دوسری جانب امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیوان نے خصوصی بریفنگ میں کہا کہ امریکی فوجی و ہوائی اڈوں کے حوالے سے گفتگو کی تفصیلات میں نہیں جاسکتے، پاکستان کے ساتھ سفارتی، دفاعی اور انٹیلی جنس کی سطح پر گفتگو ہوئی، یہ گفتگو افغانستان میں القاعدہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں کی واپسی اور حملے روکنے کےلیے امریکی صلاحیتوں پر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی جاری ہے، مستقبل میں امریکی صلاحیتوں کی مخصوص تفصیلات نہیں بتا سکتے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں تمام ہمسایہ ممالک کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد ہمسایہ ممالک اپنی سرزمین سے امریکا کو فوجی اڈے چلانے کی اجازت نہ دیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ ان کی تاریخی غلطی ہوگی۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی شروع ہوجانے اور گیارہ ستمبر تک انخلاء مکمل کرلینے کے صدر جو بائیڈن کے اعلان اور امریکا اور پاکستان کے مابین سفارتی سطح پر ہونے والے رابطوں نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ پینٹاگون، طالبان کے خلاف استعمال کرنے کےلیے پڑوسی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں نئے اڈوں کی تلاش میں ہے۔

Back to top button