فوجی عدالتوں کے بعد پارلیمانی عدالتوں کا قیام


پاکستانی عوام فوجی عدالتوں کے بارے میں تو پچھلی کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن اب پنجاب میں یہ انوکھا واقعہ رونما ہوا ہے کہ بزدار حکومت نے ایک متنازعہ قانون کے ذریعے اسمبلی کے سپیکر کو پولیس اور عدالت کے اختیارات بھی سونپ دیے ہیں جن کے تحت کسی پارلیمنٹیرین کا استحقاق مجروح کرنے کے جرم پر صحافیوں کو قید کی سزا کے علاوہ جرمانے بھی کیے جا سکیں گے۔
اس متنازع قانون کے خلاف لاہور کی صحافی برادری نے پنجاب یونین آف جرنلسٹ اور لاہور پریس کلب کے پلیٹ فارمز سے ایک احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے تا کہ پنجاب حکومت کو یہ غیر جمہوری قدم واپس لینے پر مجبور کیا جا سکے۔ سینئر صحافی اور لاہور پریس کلب کے نائب صدر جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے باہر صحافیوں کا احتجاج اس متنازع بل کی واپسی تک جاری رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے متنازعہ استحقاق بل کے ذریعے پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو پولیس اور عدالت کے اختیارات تفویض کردئیے گئے ہیں جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اس بل میں صحافیوں کے علاوہ سرکاری ملازمین کے خلاف بھی استحقاق کمیٹی اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو کارروائی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی منتخب رکن اسمبلی یہ محسوس کرے کہ کسی صحافی کی کسی خبر یا کسی سرکاری ملازم کے کسی اقدام سے اس کا استحقاق مجروح ہوا ہے تو اس معاملے پر سپیکر ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیں گے جسے مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات ہوں گے اور وہ ایک سمری ٹرائل کے ذریعہ جرم ثابت ہونے پر ملزم صحافی اور سرکاری ملازم کو چھ ماہ تک قید اور جرمانے کی سزائیں سنا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے ایسی سزائیں دینے کا اختیار فوجی عدالتوں کے پاس ہوتے تھے۔ ان عدالتوں کا سلسلہ جولائی 1977 میں جنرل ضیاءالحق نے آئین پاکستان کو روندتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد شروع کیا تھا۔ ضیا دور میں ملٹری کورٹس بنا کر سیاسی کارکنوں کو سمری ٹرائل کے ذریعے پھانسی، کوڑوں اور طویل قید کی سزائیں دے کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا تھا اور ایسے غیر آئینی اقدام کے خلاف لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کو بھی فوجی عدالتوں سے کوڑوں اور قید و بند کی سزائیں دلوا کر اہل قلم اور اہل دانش کی زبان بند کرنے کی کوشش کی گئی۔
چناچہ آج پنجاب کے صحافیوں کو ضیا دور کی "ملٹری کورٹس” کے بعد "پارلیمنٹری کورٹس” کا سامنا ہے۔
جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ اقدام کسی ملٹری ڈکٹیٹر کے ہاتھوں نہیں اٹھایا گیا بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی منتخب اسمبلی نے قانون سازی کے ذریعہ اٹھایا ہے۔ انکے مطابق اس بل کو پیش کرنے کے لئے بہت پراسرار طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ اسمبلی کی چاروں جماعتوں سے ایک ایک رکن کا انتخاب کیا گیا۔ حکومتی بنچوں سے پی ٹی آئی کے میاں شفیع محمد، قاف لیگ کے ساجد بھٹی اور اپوزیشن سے عثمان محمود اور نون لیگ سے ملک محمد احمد خان اس کے محرک تھے۔ گویا یہ بل ایوان کے چاروں سٹیک ہولڈرز نے ملکر پیش کیا اور آنا فانا بغیر کسی بحث کے اسے متفقہ طور پر منظور بھی کرلیا گیا۔
اگلے روز اس کی تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ اس بل کے ذریعے ارکان اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کرنے والوں کے لئے سخت شکنجہ تیار کردیا گیا ہے۔ جبکہ اس کمیٹی کے فیصلے کے خلاف اپیل کا اختیار سپیکر پنجاب اسمبلی کے پاس ہوگا۔ بل کے آرٹیکل 21 کے تحت سپیکر کو یہ بھی لامتناہی اختیار دیدیا گیا کہ وہ اگر سمجھیں تو شیڈول میں سے کوئی بھی سزا ختم کرسکتے ہیں اور نئی سزائیں شامل بھی کرسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ سپیکر کارروائی کے جن الفاظ کو حذف کریں ان کی اشاعت پر بھی ذمہ دار صحافی قابل گردن زدنی ہوگا۔ مجوزہ قانون نے صحافتی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور اسے آزادی صحافت پر ایک بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ بل کس کے ذہن کی اختراع ہے اور کس نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا ؟ ابھی تک حکومتی سائڈ سے کوئی اسکی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ بدقسمتی اور حیرانی اس بات پر ہے کہ مارشل لائی قوانین کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مخدوم عثمان محمود اس بل کے محرکین میں شامل ہیں جبکہ آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے "جدید کامریڈ” نوازشریف کے اہم ترین رکن اسمبلی ملک احمد خان بھی اسکا حصہ ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ چاروں جماعتیں عوامی سطح پر اس بل سے لاتعلقی ظاہر کر رہی ہیں اور کوئی بھی اسکی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔
لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اور نائب صدر جاوید فاروقی کے مطابق وہ مانتے ہیں کہ قانون سازی اسمبلی کا اختیار ہے، اس پر کوئی دورائے نہیں، لیکن دنیا بھر میں ایسی قانون سازی سے احتراز کیا جاتا ہے کہ جس سے اظہاررائے کی آزادی سمیت آئین میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق پر زد آتی ہو۔ بزدار سرکار کی جانب سے کی جانے والی یہ نہ صرف ایک "بیڈ لیجسلیشن” ہے بلکہ اس سے آمریت کی بو آتی یے۔ انکا کہنا یے کہ صحافتی حلقے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ایسی قانون سازی کی نہ صرف خود حوصلہ شکنی کریں گے بلکہ اسے ختم کرنے کے لئے بھی اقدامات کروائیں گے۔ بصورت دیگر صحافیوں نے جہاں دہائیوں تک "ملٹری کورٹس” کا مقابلہ تو اب اسی طرز پر بننے والی "پارلیمنٹری کورٹس” کا مقابلہ بھی کرلیں گے۔

Back to top button