فوجی قیادت امریکا سے اچھے تعلقات کی حامی

فوجی اور انٹیلیجنس قیادت نے حکومت کے حالیہ بیانات سے بھی بڑھ کر امریکا کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں متنازع طریقہ اختیار کیا۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے چند پارلیمانی رہنماؤں نے ڈان کو اجلاس کے احوال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ فوجی اور انٹیلیجنس قیادت نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہیں اور اسے قربان نہیں کیا جاسکتا ہے وہیں امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا ہوگا۔

یہ اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا تھا اور رات دیر تک جاری رہا تھا۔

اجلاس میں ہونے والی بات چیت علاقائی ماحول، ملک کو درپیش اسٹریٹجک چیلنجز اور داخلی و سلامتی کی صورتحال پر مرکوز تھا۔

انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حامد نے ان امور پر اجلاس میں ایک پریزنٹیشن دی۔

اراکین پارلیمنٹ پاکستان کے امریکا سے تعلقات کے بارے میں فوجی نظریات کے بارے میں جاننے کے لیے دلچسپی رکھتے تھے جو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کی وجہ سے کشمکش کا شکار ہیں۔

کمیٹی کو ممکنہ منظرناموں کی ایک حد پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ دانشمندانہ انتخاب کرنا پڑے گا جو ملک کے مفاد میں بہترین ہو۔

امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعاون، افغانستان میں خطے کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے پیچھے چھوڑی گئی افراتفری اور واشنگٹن کی چین کی قابلیت کی پالیسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔

تاہم اسی کے ساتھ امریکا کے ساتھ کاروباری تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

اپوزیشن کے ایک رکن نے بتایا کہ فوجی اور انٹیلیجنس قیادت وزیر اعظم عمران خان کے امریکا کے بارے میں سخت موقف کے حالیہ بیانات سے کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ نظر آئے۔

ایک اور سینیئر پارلیمانی رہنما نے کہا کہ اگرچہ جغرافیائی سیاسی پیشرفت کی وجہ سے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے واضح اشارے ملے ہیں تاہم یہ بھی عیاں ہے کہ ’چین کا جانبدار‘ سمجھے جانے کی بھی خواہش نہیں ہے۔

ارکان پارلیمنٹ کو اجلاس سے یہ محسوس ہوا کہ جب پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی آئندہ کی کارروائیوں کے لیے سی آئی اے کے ڈرون اڈوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا ہے وہیں سلامتی تعاون کے مستقبل پر بات چیت جاری ہے اور پیشرفت کا امکان ہے۔

ایئر اینڈ گراؤنڈ لائن آف کمیونکیشن کے بارے میں، جسے امریکا افغانستان میں اپنی فوجوں کی مدد کے لیے استعمال کرتا ہے، کہا جاتا تھا کہ ان پر حکومت 2015 کے مفاہمتی یادداشت کے ذریعے عمل کرتی ہے جس کی سالانہ تجدید ہوتی ہے۔

کہا جاتا تھا کہ اس معاہدے میں غیر مہلک مواد کی نقل و حمل کا کہنا گیا تھا تاہم امریکا نے کم از کم دو مواقع پر اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

افغانستان
اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان 1990 کی دہائی کی طرح طالبان کو امارات کی شکل میں دیکھنا نہیں چاہتا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان جس نے مئی میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، وہ رکنے والے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’18 ویں صدی کی سوچ ناقابل قبول ہے‘۔

یکم مئی کو امریکا، روس، چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’طاقت کے ذریعہ مسلط کردہ کسی بھی حکومت کے افغانستان میں قیام‘ کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

پاکستان کا افغانستان میں اہم اسٹریٹجک مفاد یہ ہے کہ اس کے خلاف افغانستان کی سرزمین کا استعمال نہیں ہو۔

اسلام آباد کو ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس وقت افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان کے تقریباً ساڑھے چھ ہزار جنگجو کابل کے زوال کی صورت میں افغان طالبان سے دوبارہ رابطہ کرسکتے ہیں۔

مزید یہ کہ افغانستان میں طالبان کی فتح، پاکستان میں پرتشدد انتہا پسند تنظیموں کے لیے حوصلہ بڑھانے کی حیثیت سے کام کر سکتی ہے جو ان کی حمایت کی بنیاد کو نئی شکل دے سکتی ہے اور انہیں نئی بھرتیاں اور فنڈز کما کر دے سکتی ہیں۔

اجلاس میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو نظریاتی رابطے کی وجہ سے ایک ہی سِکے کے دو رخ قرار دیا گیا تھا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر بہت محدود ہے۔

سیکیورٹی عہدیداروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید تشدد کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں عدم استحکام پاکستان پر بھی اس کا اثر ڈال سکتا ہے۔

یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ مزید 7 لاکھ تک افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں جبکہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ کی میزبانی کر رہا ہے۔

Back to top button