فیس بک نے خفیہ ایجنسی کے100 مشکوک اکاؤنٹس بند کر دیے


سینئر صحافی حامد میر کے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنائے جانے کے واقعے کے فوری بعد دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 40 فیس بک اکاؤنٹس، 25 فیس بک صفحات، چھ فیس بک گروپس اور 28 انسٹاگرام اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں کیونکہ وہ فیس بک پر نہایت منظم انداز میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ان اکاؤنٹس کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں آپریٹ کر رہی تھیں۔
بی بی سی کے مطابق تین جون کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں فیس بک کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بند کیے گے یا ہٹائے گئے نیٹ ورک میں ملوث افراد کا تعلق اسلام آباد اور راولپنڈی میں قائم ایک تعلقات عامہ یعنی پبلک ریلیشنز کمپنی ‘الفا پرو’ سے ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نیٹ ورک میں سے ’چند کا تعلق اُسی نیٹ ورک سے ہے جن کو فیس بک نے اپریل 2019 میں ہٹایا تھا’ اور الزام عائد کیا تھا کہ ‘ان صفحات اور اکاؤنٹس کا تعلق پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پر آر کے اہلکاروں سے پایا گیا ہے۔’ تاہم آئی ایس پی آر نے تب ان الزامات کی تردید کی تھی۔ فیس بک ‘کووآرڈینیٹڈ ان آتھینٹک بیہیوئر’ کی اصطلا ح کی تعریف ایسے اکاؤنٹس کے طور پر کرتا ہے جو منظم طریقے سے چلائے جاتے ہیں اور ایک حکمت عملی کے تحت مہم چلا کر عوامی بحث و مباحثے کا رخ مخصوص بیانیے کی جانب موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فیس بک نے اپنی رپورٹ کی تیاری میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تحقیق کرنے والی کمپنی گرافیکا کی مدد حاصل کی ہے۔ گرافیکا نے اس حوالے سے کہا ہے کہ وہ 2019 اور 2021 کے مختلف نیٹ ورکس میں کوئی ’براہ راست تعلق‘ تو قائم نہیں کر سکے لیکن ’عوامی طور پر موجود معلومات کی روشنی میں وہ الفا پرو اور آئی ایس پی آر کے درمیان متعدد روابط قائم کرنے کے شواہد‘ حاصل کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تحقیق کرنے والی کمپنی گرافیکا کے مطابق ان دونوں نیٹ ورکس میں مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں پاکستانی افواج کی بھرپور تعریف کرتے اور خراج تحسین پیش کرتے اور ساتھ ساتھ انڈیا مخالف مواد کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سٹریٹجک حکمت عملی کے مقاصد ایک ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ الفا پرو کی ویب سائٹ پر دیا گیا فون نمبر مسلسل بند آ رہا ہے اور ان کے فیس بک پیج پر بی بی سی کی جانب سے چھوڑے گئے پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
فیس بک کے لیے گرافیکا کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنی الفا پرو کے لیے کام کرنے والے افراد کا تعلق ان اکاؤنٹس سے ثابت ہوا ہے جنھیں فیس بک نے معطل کیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو براہ راست ان کے عملے کے اپنے اکاؤنٹس تھے، جبکہ کچھ فیس بک صفحات وہ تھے جو الفا پرو کی جانب سے تیار کیے گئے مواد کی تشہیر کر رہے تھے۔ گرافیکا کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کی جانب سےکچھ مخصوص بیانیوں کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ الفا پر کمپنی، جن کا ایک دفتر اسلام آباد کے میڈیا ٹاؤن میں جبکہ دوسرا دفتر راولپنڈی کے صدر کے علاقے میں ہے، خود کو ‘سوشل میڈیا سروس’ کے طور پر متعارف کراتی ہے اور وہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر موجود ہے تاہم اس وقت ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل ہے۔
گرافیکا کے مطابق الفا پرو 2016 سے قبل شادی کی تقریبات کا انعقاد کرنے کی کمپنی تھی اور ‘ویڈنگ مبارک’ نامی کمپنی کے دفتر کا پتہ وہی ہے جو الفا پرو کا ہے اور ماضی وہ ‘ویڈنگ بائی الفا پرو’ کے نام سے جانے جاتے تھے۔
گرافیکا کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک نے جن اکاؤنٹس کو معطل کیا ہے ان میں سے ایک اکاؤنٹ الفا پرو کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا ہے جبکہ ایک اور اکاؤنٹ اس شخص کا ہے جس نے خود کو دیگر پراجیکٹس میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ گرافیکا اپنی تحقیق میں لکھتی ہے کہ ‘بظاہر ملنے والے شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ جس بیانیے کو یہ نیٹ ورک فروغ دے رہا ہے وہ ان مفادات سے مماثلت رکھتا ہے جو الفا پرو کے گاہکوں کا ہے۔
فیس بک نے جن مشتبہ اکاؤنٹس اور پیجز کی نشاندہی کی ہے ان کے درمیاب روابط اور کوآرڈینیشن کے واضح اشارے ملے ہیں اور انھوں نے جعلی شناختوں اور دھوکہ بازی سے صارفین کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کم از کم 12 صفحات ایسے تھے جو خود کو پاکستان میں قائم میڈیا اداروں کے طور پر متعارف کراتے تھے حالانکہ وہ الفا پرو کی جانب سے پاکستان سے ہی چلائے جاتے تھے اور ان کا مقصد پاکستانی صارفین میں مخصوص سیاسی بیانیے کو فروغ دینا تھا۔ گرافیکا نے ان فیک میڈیا اداروں کے صفحات پر موجود ویڈیو مواد پر تحقیق کی تو معلوم ہوا جن جن نیوز اینکرز کی ویڈیوز شائع کی گئی تھیں وہ یا تو حکومت اور ریاست نواز صحافی تھے یا وہ لوگ تھے جنھیں کرائے پر فری لانس سکرپٹ پڑھنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
بی بی سی نے گرافیکا کے ڈائریکٹر انویسٹی گیشن جیک سٹبز سے اس رپورٹ کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ منظم کارروائی ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح ریاستی ایجنسیاں آن لائن اثر و رسوخ کی مہم چلاتی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ خود کام کرنے کے بجائے اسے کسی اور کے ذریعے کروانا آسان ہوتا اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ملوث سیاسی کرداروں کا اس آپریشن سے براہ راست تعلق ثابت نہیں ہوتا اور وہ کرائے پر لوگوں کو حاصل کرتے ہیں یا جعلی نیوز ادارے قائم کرتے ہیں۔ یہ سب ظاپر کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی مقاصد اور اپنے مفادات کو فروغ دینے کے لیے آزادی صحافت کی اقدار کو استعمال کیا جاتا ہے۔’

Back to top button