قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پرپابندیاں اورگرفتاریاں غلط کیوں؟
قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پرپابندیاں اورگرفتاریاں غلط کیوں؟سینئیر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا یے کہ آج کے پاکستان میں حکمران اشرافیہ اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اداروں پر تنقید کرو تو وہ توہین کہلاتی ہے اور ملک دشمنی قرار پاتی ہے لیکن علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے بارے میں کوئی بھی جھوٹ بول دیں ان کی کوئی پکڑ نہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقبال دشمن لابی بہت مضبوط ہے۔ اقبال کو غدار قرار دینے والے جوش ملیح آبادی کو بھارتی حکومت نے 1954 میں پدما بھوشن ایوارڈ دیا کیونکہ تب وہ بھارتی شہری تھے۔ 2013 میں جوش ملیح آبادی کو حکومت پاکستان سے ہلال امتیاز دلوایا گیا کیونکہ جوش صاحب 1956ءمیں پاکستانی بن گئے تھے جن صاحب نے جوش کو ہلال امتیاز دلوایا وہ جوش کی شاعری سے زیادہ ان کی کتاب ’’یادوں کی برات‘‘ کے مداح تھے جو علامہ اقبال اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھری ہوئی ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم جب ایک دوسرے کے قریب آئے تو برصغیر کی سیاست میں تلاطم برپا ہو گیا۔ 1930ءکا خطبہ الٰہ آباد بھی ایک تلاطم تھا چند سطور ملاحظہ فرمائیں۔ اقبال نے خطہ الٰہ آباد میں فرمایا ’’میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح وبہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن کی بدولت امن وامان قائم ہو جائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشائیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اور اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے علامہ اقبال نے ARABIAN IMPERIALISMکا لفظ استعمال کیا تھا۔
خطہ الٰہ آباد کا اردو ترجمہ سیدنذیر نیازی نے کیا تھا انہوں نے اس انگریزی لفظ کو عربی شہنشائیت قرار دیا اور بعد میں اقبال بارہا شہنشائیت اور ملوکیت کو خلاف اسلام قرار دیکر مسترد کرتے رہے۔ اب آپ کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ جب پروفیسر فتح محمد ملک ایک کانفرنس میں عرب بادشاہوں کے متعلق اقبال کے خیالات پر روشنی ڈالتے ہیں تو اس کے بعد انہیں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی سربراہی کیوں چھوڑنا پڑتی ہے؟
حامد میر کیتے ہیں کہ مجھے 2019 میں ایک عجیب تجربہ ہوا۔ کچھ ٹی وی اینکرز اور کالم نگار اسرائیل کے ساتھ دوستی کے اچانک بخار میں مبتلا ہو گئے۔ مجھے بھی ایک طاقتور ترین شخصیت نے اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کیلئے کہا جب میں نے انہیں علامہ اقبال اور قائد اعظم کے فلسطین کے متعلق خیالات سے آگاہ کیا تو ایک کالم نگار کے ذریعے ان خیالات کو فرسودہ قرار دیکر مسترد کرا دیا گیا۔ اقبال کا دشمن قائد اعظم کا دوست نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں رہنماؤں کے فلسطین اور کشمیر پر خیالات کو ایک لابی اپنے ایجنڈے کیلئے خطرہ سمجھتی ہے۔ یہی لابی افغانوں سے اقبال کی محبت کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھتی ہے۔ اس لابی کو ایران میں اقبال کی مقبولیت گوارا نہیں ۔یہ لابی آپ کو کبھی یہ نہیں بتائے گی کہ خطہ الٰہ آباد میں اقبال نے پختونوں کیلئے افغان کی اصطلاح کیوں استعمال کی؟
اقبال نے دسمبر 1930ء کے خطہ الٰہ آباد میں پختونوں کیلئے آئینی اصلاحات کا مطالبہ اس لئے کیا کہ اپریل 1930ء میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خدائی خدمت گاروں کا قتل عام کیا گیا۔ 1934ء میں مرکزی اسمبلی میں خدائی خدمت گار تحریک پر پابندی کیلئے قرارداد آئی تو قائد اعظم نے کانگریس کے ساتھ مل کر اس قرارداد کو مسترد کرایا۔ 1935ء میں پختون قبائلی علاقے پر انگریزوں کی بمباری کے خلاف قرارداد کی قائد اعظم نے حمایت کی۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہر ظلم کے خلاف تھے دونوں پر کفر اور غداری کے فتوے لگائے گئے لیکن یہ دونوں علماء کے خلاف نہیں تھے بلکہ کئی جید علماء نے ان دونوں کی حمایت کی۔ ابو عمار زاہد الراشدی نے مولانا عبید اللہ انور کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا کہ جب مولانا احمد علی لاہوری نے شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ایک جلسہ کیا تو علامہ اقبال اسٹیج پر موجود تھے ۔ جب مولانا شبیر احمد عثمانی نے خطاب شرو ع کیا تو اقبال اسٹیج سے اٹھ کر سامعین میں جا بیٹھے اور کہا اس پیکر علم کا خطاب سامنے بیٹھ کر طالب علم کی طرح سننا چاہئے ۔علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان میں علما اور مدارس کے بارے میں جھوٹ پھیلانے والے بھلے ہم جیسوں کو غدارکہا کریں لیکن یاد رکھیں کہ یہ ملک مظلوموں کے حقوق کیلئے، تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا غلامی سے نجات کیلئے بنایا گیا تھا قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نام پر پابندیوں اور گرفتاریوں کیلئے نہیں بنایا گیا تھا۔