قومی سلامتی کمیٹی اجلاس، افغانستان کی صورتحال وچیلنجز پر بریفنگ
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں پارلیمانی رہنماوں کو مسئلہ کشمیر، افغانستان کی صورت حال، ملک کو درپیش اندرونی چیلنجز سمیت دیگر معاملات پر بریفنگ دی گئی۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرا طویل اجلاس ہوا جو لگ بھگ آٹھ گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔ اس اہم اجلاس میں افغانستان اور ملکی سیکیورٹی پر بریفنگ دی گئی، شرکا نے عید سے قبل دوبارہ اجلاس بلانے پر اتفاق کیا۔
اس اہم اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت شریک ہوئے۔ اجلاس کے شرکا کو مسئلہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان بامعنی گفت وشنید کا آغاز ہوا، افغانستان میں امن جنوبی ایشیا میں استحکام کا باعث بنے گا۔بریفنگ میں کہا گیا کہ پاکستان افغانستان میں عوام کی نمائندہ حکومت کا خیر مقدم کرے گا۔ افغان امن کیلئے اپنے ذمہ دارانہ کردار کو بھی جاری رکھا جائے گا۔شرکا کو دی گئی اس اہم بریفنگ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کی سرزمین افغان تنازع میں استعمال نہیں ہو رہی، امید ہے کہ افغان سرزمین بھی پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ افغان سرحد پر باڑ کا کام 90 فیصد مکمل کر لیا گیا ہے۔
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ کسٹمز اور بارڈر کنٹرول کا موثر نظام تشکیل دیا جا رہا ہے، ذرائع کے مطابق سیاسی اور پارلیمانی قیادت نے اہم معاملات پر دی جانے والی بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا۔تمام ارکان نے افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، پاکستانی کاوشوں سے افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ان کیمرہ اجلاس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، دیگر عسکری حکام، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت سیاسی قیادت اور چاروں وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوئے۔سیاسی قیادت نے بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور اپنی سفارشات بھی پیش کیں جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکا کے سوالات کی جواب بھی دئیے۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر ساری اپوزیشن اور حکومت ایک ہیں۔
جمعرات کو پاکستان کے پارلیمان کا منظر قدرے مختلف تھا۔ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے لیے ایک سو کے قریب ارکان، عسکری حکام، سرکاری افسران قومی اسمبلی ہال میں جمع ہوئے۔ اجلاس کی صدارت اگرچہ سپیکر قومی اسمبلی نے ہی کی لیکن اجلاس میں موجود ارکان کے مطابق وہ چیئرمین سینیٹ کے ساتھ ہال کے دائیں جانب جبکہ بائیں جانب آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے کرسیاں اور ان کے سامنے میز لگائے گئے تھے۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی کرسیوں کے سامنے روسٹرم رکھا گیا تھا جس پر کھڑے ہوکر ڈی جی آئی ایس آئی نے شرکا کو بریفنگ دی۔
قومی اسمبلی کا ایوان جسے کمیٹی روم کا درجہ دیا گیا تھا اس کا سیٹنگ پلان کم و بیش ایسے ہی تھا جیسے حکومت اور اپوزیشن ارکان معمول میں بیٹھتے ہیں فرق صرف یہ تھا کہ پہلی رو میں وفاقی وزراء اور پارلیمانی لیڈران تھے جبکہ دوسری، تیسری قطار میں ارکان پارلیمان تھے۔ اپوزیشن کی طرف شہباز شریف اپنی نشست پر براجمان تھے۔ ان کے دائیں جانب خواجہ آصف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود، شاہد خاقان عباسی اور دیگر بیٹھے تھے۔حکومتی نشستوں پر وزیراعظم عمران خان کی نشست خالی تھی۔ ساتھ والی نشست پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وزیر داخلہ شیخ رشید اور دیگر موجود تھے۔ دوسری اور تیسری قطار میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو بٹھایا گیا تھا جبکہ ان کے پیچھے سرکاری اور عسکری حکام بٹھائے گئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایوان میں غیر منتخب افراد کو بھی ایوان میں ارکان پارلیمان کی نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اِن کیمرہ اجلاس کی تفصیلات مختلف ذرائع اور ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے باہر آتی رہیں۔ جو بھی رکن باہر آتا میڈیا کے نمائندگان ان سے سوال کرتے اور کم و بیش تمام افراد کا جواب یہی ہوتا کہ ’اجلاس میں بریفنگ دی جا رہی ہے، حقائق بتائے جا رہے ہیں، ان حقائق کی روشنی میں پالیسی مرتب کی جائے گی۔‘
اجلاس تین بجے شروع ہوا تو ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو 45 منٹ بریفنگ کے لیے دیے گئے۔ذرائع کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ ڈیڑھ گھنٹے بعد ختم ہوئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا لیکن جلد ہی نماز اور چائے کا وقفہ کر دیا گیا۔تقریباً چھے بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو سوال و جواب کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو مزید دو گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا اور سوالات بھی اٹھائے۔
اجلاس کے دوران ایک رکن قومی اسمبلی ایوان سے باہر آئے تو استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں وزیراعظم کی خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے اعتراض کیا کہ اتنے اہم اجلاس میں وزیراعظم کو موجود ہونا چاہیے تھا۔ جس پر حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ وزیراعظم اجلاس میں شرکت کے لیے تیار تھے لیکن ہمیں یہ تاثر دیا گیا کہ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ وہ موجود ہوں۔ ایک اور رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘آج کے اجلاس میں ایسے حقائق سامنے رکھے گئے جو پاکستان کے لیے خوشگوار نہیں ہیں۔’
جب اجلاس میں وقفے کے دوران باہر آنے پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کسی رکن نے وزیراعظم کی عدم موجودگی کا نکتہ اٹھایا تھا تاہم وزیراعظم اگر اجلاس میں آتے تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ انھیں کوئی نقصان نہ پہنچاتا۔
اجلاس کے پہلے سیشن کے بعد جب ارکان باہر آئے تو ان کا رویہ سنجیدہ تھا اور جس سے بھی بریفنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا موقف تھا کہ ابھی رائے کا اظہار ممکن نہیں۔ تاہم دوسرے سیشن کے دوران جب ارکان باہر آئے تو وہ بریفنگ کے بارے میں مطمئن دکھائی دیے اور کہا گیا کہ اچھی بریفنگ دی گئی ہے۔
شاہد خاقان عباسی ایوان سے باہر آئے تو صحافیوں نے پوچھا کہ ‘اتنی خاموشی کیوں ہے؟’ اس پر شاہد خاقان عباسی نے برجستہ جواب دیا کہ ‘ہم نے اپنی زبان، کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔’ تاہم جب دوسرے سیشن میں شاہد خاقان عباسی سے سوالات پوچھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ رُک گئے اور کہا کہ ’جتنے سوال کرنے ہیں کر لیں۔ سوال سب کے سنوں گا جواب میں اپنی مرضی سے دوں گا۔‘شاہد خاقان 15 منٹ تک سوال سنتے رہے اور جوابات دیتے رہے تاہم انھوں نے بریفنگ کی جزئیات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے حقائق، چیلنجز، مشکلات اور خدشات رکھے گئے ہیں۔ ہر جماعت اپنا موقف دے گی اور اس کے بعد پالیسی بنے گی۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بریفنگ کو مناسب قرار دیا۔ امریکہ کو فضائی اڈے دینے کے حوالے سے سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ اس حوالے سے سب کو پتہ ہے تاہم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ‘اطلاع کے مطابق امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں۔’
چند دن قبل جنگ کے میدان کا منظر پیش کرنے والی پارلیمنٹ میں قومی یکجہتی کے منظر سے اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی خوش تھے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپوزیشن کی موجودگی کو خوش آئند کہا تو اپوزیشن نے بھی اپنے مطالبے پر اجلاس بلائے جانے کو جمہوریت اور پارلیمان کے لیے نیک شگون قرار دیا۔
پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا اگرچہ یہ دوسرا اجلاس تھا مگر وجودہ دور حکومت میں عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی قیادت کو قومی سلامتی کے مسئلے پر چوتھی مرتبہ اعتماد میں لیا گیا ہے۔ 26 فروری 2019 کو انڈیا کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی اور 27 فروری کو پاکستان کی فضائیہ کی جوابی کارروائی کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر عسکری حکام نے پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیا تھا۔
اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں ڈی جی ایم او نے پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ اس کے علاوہ آرمی ہاوس راولپنڈی میں آرمی چیف نے پارلیمانی لیڈرز کو عشائیے پر مدعو کرکے بھی قومی سلامتی کی صورت حال پر آگاہی دی تھی۔ ان تمام بریفنگز میں جو بات ہر دفعہ خبروں کی زینت بنی وہ وزیراعظم عمران خان کی غیر موجودگی تھی جو جمعرات کی بریفنگ میں بھی زیر بحث رہی۔
اجلاس بارے پارلیمنٹ ہاﺅس اسلام آباد سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت، رہنماﺅں اور اراکین کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی، اندرونی چیلنجز، خطے میں وقوع پذیر تبدیلیوں خصوصاً تنازع کشمیر اور افغانستان کی صورت حال پر جامع بریفنگ دی گئی۔
شرکاکو بتایا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کے ساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، پاکستان کی بھرپور کاوشوں کی بدولت نہ صرف مختلف افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی بلکہ امریکا اور طالبان کے درمیان بھی بامعنی گفت و شنید کا آغاز ہوا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ہم اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام دراصل جنوبی ایشیا میں استحکام کا باعث بنے گا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جائے گا اور افغان امن کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان کی سر زمین افغانستان میں جاری تنازع میں استعمال نہیں ہو رہی اور اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی جبکہ افغانستان کی سرحد پر باڑ کا کام 90 فیصد مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ کسٹمز اور بارڈر کنٹرول کا بھی موثر نظام تشکیل کیا جا رہا ہے۔
اعلامیے کے مطابق سیاسی و پارلیمانی قیادت نے ڈی آئی ایس آئی کی بریفنگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن، ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے اجلاس نہ صرف اہم قومی امور پر قومی اتفاق رائے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ مختلف قومی موضوعات پر ہم آہنگی کو تقویت دینے کا بھی باعث بنتے ہیں۔
بریفنگ میں سوال و جواب کے سیشن میں اراکین اپنی سفارشات پیش کر رہے ہیں اور ان سفارشات کو سیکورٹی پالیسی کا اہم حصہ گردانا جائے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر ریلوے اعظم خان سواتی، وزیر ہاوسنگ اینڈ ورکس چوہدری طارق بشیر چیمہ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر اسد محمود، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، رکن قومی اسمبلی خالد حسین مگسی، بی این پی کے سربراہ اختر مینگل، غوث بخش خان مہر، عامر حیدر اعظم خان، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، اراکین سینیٹ شیری رحمٰن، اعظم نذیر تارڑ، انوار الحق کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، فیصل سبزواری، محمد طاہر بزنجو، ہدایت اللہ خان، محمد شفیق ترین، کامل علی آغا، مشتاق احمد، مظفر حسین شاہ، محمد قاسم اور دلاور خان شریک ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم خان سوری، وزیر دفاع پرویز خٹک، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک محمد عامر ڈوگر، اراکین قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، احسن اقبال، راجا پرویز اشرف اور حنا ربانی کھر کو بھی خصوصی طور پر دعوت دی گئی ہے۔
اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہیں اور عسکری قیادت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل جنرل فیض حمید، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار سمیت قومی سلامتی کے دگیر اداروں کے سربراہان بھی اجلاس میں خصوصی طور پر شرکت کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان شریک نہیں ہیں تاہم وزیرخارجہ سمیت دیگر اہم وزرا اجلاس میں موجود ہیں جبکہ وزیراعظم نے اسلام آباد میں کسانوں کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔