مردم شماری کے نتائج پر سینیٹ نے مشترکہ اجلاس طلب کرلیا
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 2017 کی مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری کرنے کے منظوری سے متعلق سندھ کے اعتراض پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو طلب کرنے کے لیے صدر کو خط لکھا ہے۔
یہ انکشاف اس وقت ہوا جب سابق سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی کی جانب سے ایوان میں سندھ کی آبادی کی مبینہ طور پر کم گنتی کا معاملہ اٹھایا۔رضا ربانی نے عوامی اہمیت کے ایک مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے 14 اپریل کو اس معاملے پر وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا تھا۔اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سندھ مطمئن نہیں ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 154 (7) کے تحت ایسی صورتحال میں حتمی فیصلے کے لیے پارلیمنٹ مناسب فورم ہے۔واضح رہے کہ آرٹیکل 154 (7) میں کہا گیا ہے کہ ‘اگر وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کونسل کے فیصلے پر عدم اطمینان رکھتی ہے تو وہ اس معاملے کو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے مشترکہ اجلاس میں بھیج سکتی ہے جس کا فیصلہ اس معاملے میں حتمی ہوگا’۔رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ وزیر اعلی سندھ نے 29 اپریل کو چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھی خطوط لکھے تھے۔انہوں نے کہا کہ جب 7 اپریل کو مردم شماری کا معاملہ سی سی آئی کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو وزیر اعلی سندھ نے اعتراض اٹھایا تھا اور پھر وزیراعلیٰ بلوچستان کی درخواست پر اس کو ملتوی کردیا گیا تھا اور 12 اپریل کو دوبارہ اٹھایا گیا تھا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے فیصلہ لینے میں اتفاق رائے سے متعلق روایت کو توڑا گیا۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ مردم شماری کو صحیح طریقے سے نہیں کرایا گیا اور انہوں نے الزام لگایا کہ سندھ کی آبادی کی گنتی صحیح نہیں کی گئی ہے۔انہوں نے چیئرمین سینیٹ سے کہا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ سندھ کو آئینی حق ملے۔چیئرمین صادق سنجرانی نے بتایا کہ انہیں یہ خط دو روز قبل موصول ہوا ہے اور انہوں نے مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے لیے صدر کو پہلے ہی خط لکھ دیا تھا جس کی ایک کاپی قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھی ارسال کی گئی ہے۔سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) آرڈیننس کو ایوان میں پیش نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی یہ ایک بل بن رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت آرڈیننس کے ذریعے ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو اس پارلیمنٹ کا کیا مقصد ہے؟ یہ انتہائی تشویشناک ہے، ہمارے حقوق اور ذمہ داریوں سے سمجھوتہ کیا جارہا ہے، ایوان صدر ایک ’آرڈیننس فیکٹری‘ بن گیا ہے۔شیری رحمٰن نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) آرڈیننس 2021 لانے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ منی مارشل لا کے متنازع آرڈیننس کو اب سینسرشپ کو فروغ دینے اور میڈیا کی آزادی کو روکنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔انہوں نے سوال کیا کہ ‘یہ ضیا اور مشرف کے کالے قوانین کا مجموعہ ہے، کیا یہی وہ سمت ہے جس پر حکومت ہمیں لے کر جانا چاہتی ہے؟’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میڈیا کو ریگولیٹ کرنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بیانیے کو قابو کرنے کی کوشش کرنا اور تمام سنجیدہ اور تنقیدی آوازوں کو ختم کرنا الگ مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ شرمندگی کی بات ہے کہ دنیا اب اسلام آباد کو صحافت کے لیے سب سے خطرناک مقام کے طور پر دیکھتی ہے، میڈیا کو خاموش کرنے کا مطلب ہے ہمیں خاموش کروانا، اس آرڈیننس کو ایوان کے سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اسے ریگولیٹ کرسکیں’۔شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ حکومت سے متفق نہیں ہیں تو آپ پر غدار کا لیبل لگادیا جاتا ہے، تعمیری تنقید کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے پاس پاکستان میں پہلے ہی جرمانے ہیں لیکن وہ اس آرڈیننس کے ذریعے جو سزائیں لانا چاہتے ہیں وہ ظلم ہے، ہمارے پاس پہلے ہی آئی ٹی اور ریگولیشن کمیٹیاں ہیں، انہیں اپنا کام کرنے دیں’۔سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے زور دیا کہ آئین کے تحت آرڈیننس نافذ کرنے کی اجازت ہے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے ماہانہ اوسطا 26 آرڈیننس جاری کیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ثبوت کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بات کرنا ایک فیشن بن گیا ہے ‘ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانا ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے اور بہت سے دوست اس کے بارے میں جانے بغیر اس میں پھنس گئے ہیں، سیکیورٹی اداروں اور دیگر اداروں جیسے کہ عدلیہ کو کمزور کرنا اس جنگ کا حصہ ہے’۔شہزاد وسیم نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور میڈیا کے نئے قانون کے حوالے سے کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اسلام آباد صحافیوں کے لیے خطرناک ہوگیا ہے، یہ آرڈیننس آئین کے تحت ایوان میں پیش کیے جاتے ہیں اور اگر ان کو پیش نہیں کیا گیا تو پھر انہیں منسوخ کردیا جائے گا’۔قبل ازیں وقفہ سوالات کے دوران وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نے اپنے متنازع ریمارکس کو دوہرایا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے 262 پائلٹس نے مشکوک لائسنس حاصل کیے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 50 کو پہلے ہی برطرف کردیا گیا تھا اور 32 کو معطل کردیا گیا تھا جبکہ باقی کے کیسز زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جعلی لائسنس والے پائلٹ پی آئی اے کے طیارے اڑاتے رہے ہیں۔سینیٹ نے بغیر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (ترمیمی) بل 2021 کو متفقہ طور پر منظور کیا جسے قومی اسمبلی نے پہلے ہی منظوری دے دی تھی۔چیئرمین سینیٹ نے ایوان کو بتایا کہ آج یہ بل منظور نہ ہونے کی صورت میں ختم ہوجائے گا اور انہوں نے حزب اختلاف سے اس وعدے کے ساتھ منظور کرنے کو کہا کہ اس میں اصلاحات کے بعد آنے والی کسی بھی ترامیم کو تسلیم کیا جائے گا۔