افغان طالبان چمن سرحد پر جگا ٹیکس وصول کرنے لگے

پاکستان نے افغانستان سے متصل اہم سرحدی گزرگاہ چمن-اسپن بولدک سے دو طرفہ تجارتی سرگرمیاں تو بحال کر دی ہیں لیکن اب یہ تجارت افغان کی حکومت کی بجائے افغان طالبان کے زیرِ انتظام چل رہی ہے جنہوں نے پاکستان میں داخل کے لیے تجارتی ٹرکوں پر بھاری جگا ٹیکس نافذ کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ افغان طالبان نے پچھلے دنوں اسپپن بولدک پر قبضہ کر لیا تھا جسکی سرحد چمن سے متصل ہے اور باہمی تجارت کے لیے استعمال ہوتی یے۔ اس قبضے کے بعد پاکستان نے سرحد بند کر دی تھی۔ اب چمن-اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ روزانہ پانچ گھنٹے دو طرفہ تجارت کے لیے کھلی رہے گی۔ اس کے علاوہ مخصوص اوقات میں پیدل آمد و رفت بھی جاری رہے گی۔
واضح رہے کہ اسٹیٹیجک حوالے سے افغانستان کے اہم ضلعے اسپن بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد سرحد کی بندش کے نتیجے میں ہزاروں افراد دونوں اطراف پھنس گئے تھے اور دوطرفہ تجارت معطل ہوکر رہ گئی تھی۔
طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی افواج کے انخلا کے دوران چمن- اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کر کے اہم ترین ہدف حاصل کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام کی گزشتہ ہفتے طالبان کے ساتھ ہونے والی فلیگ میٹنگ میں دوطرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی پر اتفاق ہوا تھا۔ سرحد پر موجود مال بردار ٹرکوں، کنٹینرز کی طویل قطاروں اور تاجروں کے نقصان کو دیکھتے ہوئے دونوں جانب سے تجارت کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستانی حکام کے لیے یہ فیصلہ مشکل تھا کیوں کہ طالبان کے قبضے کے بعد کسٹم کا باقاعدہ نظام نہیں چل رہا اور تجارت کی بحالی پر ہاتھ سے لکھی رسیدوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اب اس سرحدی گزرگاہ سے ہونے والی تجارت پر افغان طالبان کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کے علاوہ جگا ٹیکس بھی وصول کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی تاجروں کو اس بات کی بھی تشویش ہے کہ آیا ان کا سامان متعلقہ جگہ تک پہنچ بھی رہا ہے جس کی تصدیق کا نظام سرحد پار کسٹم ہاؤس بند ہونے کی وجہ سے ختم ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ چمن۔اسپن بولدک سرحدی گزرگاہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ افغان حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اس راستے سے یومیہ 900 ٹرکوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔اس سرحدی گزرگاہ پر قبضے کے بعد طالبان نے افغان قومی پرچم اتار کر ’اسلامی امارت افغانستان‘ کا پرچم لہرا دیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور انہوں نے حالیہ ہفتوں میں ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کیا ہے تاکہ جگا ٹیکس وصول کر کے افغان فورسز کے خلاف مزید اسلحہ اکٹھا کیا جا سکے۔
طالبان کے مطابق وہ شورش زدہ ملک کے 85 فی صد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں تاہم کابل انتظامیہ جنگجوؤں کے ان دعووں کی تردید کرتی ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان سمندر سے محروم ملک ہے جس کا تجارت و دیگر نقل و حمل کے لیے انحصار ہمسایہ ممالک کی بندرگاہوں پر ہوتا ہے۔ چنانچہ سرحدی گزرگاہ بند ہونا دونوں ملکوں کے تاجروں کے لیے مشکل صورتِ حال کا سبب تھی کیوں کہ تازہ اشیا کی ترسیل کو ہفتوں تک روکنا ممکن نہیں۔