مسلم لیگ ن کے مؤقف کی قلابازیاں اسے کہاں لے جائیں گی؟

سینئر صحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ عمران کا یہ جرم ہے کہ وہ دو فوجی سربراہوں سے اختلاف رکھتا تھا یہ واقعی جرم ہے مگر بالکل یہی جرم میاں نواز شریف نے چھ بار کیا ہے. اگر کل کو نواز شریف کی بطور وزیر اعظم مقتدرہ سے نہ بن سکی تو پھر عمران کو ’’ تُن‘‘ دینے کا مشورہ دینے والوں کا بیانیہ کیا ہو گا؟ دوسری طرف اگر کل کو عمران خان سے مقتدرہ کی صلح ہو گئی تو کیا پھر بھی ن لیگ مقتدرہ کے اقدامات کی حمایت کرے گی؟؟ ن لیگ نے اپنے موقف میں جو قلابازیاں کھائی ہیں آنے والے دنوں میں یہ انہیں شرمندہ کریں گی۔ اپنے ایک کالم میں سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے ترجمانوں کو چاہئے کہ وہ سیدھے سبھائو یہ کہیں کہ پارٹی کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ مصلحت سے کام لیکر اقتدار میں آئے مگر الٹا کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم اصولوں پر چل رہے ہیں، یہ دلیل مضحکہ خیز ہے اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ جو سلوک وزیر اعظم عمران خان کے دور میں نواز شریف اور ان کی جماعت سے ہوا، نواز شریف کو وہ سلوک دہرانے کی بجائے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ اس سادہ اور سیدھی بات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ یا صدیوں پرانی ضرب المثل سامنے تھی کہ ’’جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔‘‘ سیاست میں انتقام کا سلسلہ رکنا چاہئے وگرنہ جو آج عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو پھر نواز شریف کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر یہ معاملہ فوراً سمجھ میں آ جانا چاہئے تھا مگر اقتدار کو قریب آتے دیکھ کر جوش انتقام بڑھنا شروع ہو گیا ہے اسی لئے کل تک جس ادارے کو طنزیہ طور پر خلائی مخلوق اور پتلیوں کا کھیل کہا جا رہا تھا اب اسے احتراماً کلید بردار کہا جا رہا ہے، نون کو یہ تبدیلی مبارک مگر بہت سے خاکساروں کو یہ قلبی یا صرف لفظی تبدیلی سمجھ نہیں آ رہی۔بڑے لوگوں کو عام لوگوں کا اختلاف ذرا نہیں بھاتا مگر ہم صحافی بھی مجبور ہیں کہ جب نواز شریف مظلوم تھا تو اس کےساتھ ہمدردی محسوس ہوتی تھی، آج عمران خان جیل میں ہے تو وہ بھی مظلوم لگتا ہے۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ہم نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 9مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو پارٹی سے نکال دیں بالکل اسی طرح جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے طیارہ اغوا کے بعد الذوالفقار سے پیپلز پارٹی کو بالکل علیحدہ کر لیا تھا یوں انکی حکمت عملی سے پارٹی بچ گئی تھی۔ افسوس کہ عمران خان نے سیاسی جماعتوں سے مصالحت کے ہمارے مشورے کی طرح اس تجویز کو بھی نہ مانا اور نتیجتاً ساری پارٹی 9مئی کے واقعات کی زد میں آ گئی۔ میرا ذاتی موقف اور تھا اور ابھی تک ہے مگر عمران خان نے اس موقع پر بالکل نواز شریف والا رویہ اپنایا، جس طرح نواز شریف نےسپریم کورٹ پر اپنے کارکنوں کے حملے میں ملوث لوگوں کو پارٹی سے نہیں نکالا تھا عمران خان نے بھی نہ نکالا۔ دونوں کا طرز عمل ایک جیسا تھا البتہ سپریم کورٹ حملے میں ملوث لوگوں کو انفرادی سزائیں ہوئیں مگر 9مئی کے واقعے کی تحریک انصاف کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے یہ کھلا تضاد ہے جس کی نشاندہی بھی کی گئی اور جو فریق ثانی کو لازماً گراں گزرا۔ 9مئی کی تہہ میں جائیں تو اصل بات تو عمران کا یہ جرم ہے کہ وہ دو فوجی سربراہوں سے اختلاف رکھتا تھا یہ واقعی جرم ہے مگر بالکل یہی جرم میاں نواز شریف نے چھ بار کیا ہے، عمران خان کی جنرل باجوہ سے نہیں بنی جبکہ میاں نواز شریف کی نہ جنرل اسلم بیگ سے بنی نہ جنرل آصف نواز سے نباہ ہو سکا نہ جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ چل سکے نہ جہانگیر کرامت کےساتھ گزارا ہوا نہ ہی جنرل مشرف سے اچھے تعلقات رہے اور پھر آخر میں جنرل باجوہ سے بھی انکی لڑائی ہو گئی تھی۔ عمران نے جو جرم تھوڑی بار کیا ہے وہی جرم نواز شریف نے زیادہ بار کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف نے ہر بار مقتدرہ سے دوبارہ صلح کر لی عمران خان اس لچک سے عار ی ہیں یہی بات ہے کہ وہ مسلسل مشکل میں ہیں.