ملالہ کے خلاف پراپیگنڈا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے
تحریر : سلیم ملک
ملالہ پندرہ سال کی بچی تھی اور وہ سکول سے واپس آ رہی تھی کہ ایک بندوق بردار دہشتگرد نے راستے میں اس کی گاڑی روکی اور شناخت کے بعد ملالہ پر کئی گولیاں چلائیں۔ ملالہ شدید زخمی حالت میں تھی۔ اس کے بچ جانے کی امید بہت کم تھی۔ طالبان نے بچی پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس وقت بھی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملالہ کے خلاف تھی اور سازشیں ڈھونڈ رہی تھی۔ اور اب تو ملالہ نمبر ون فیشن میگزین کے کور پر ہے تو اس وقت وہ لوگ اپنی جہالت بگھارنے سے کیسے باز رہ سکتے ہیں۔
اور ملالہ کے مخالف کوئی عام ان پڑھ لوگ نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر بہت پڑھے لکھے ہیں اور جتنے وہ پڑھے لکھے ہیں اس سے کہیں زیادہ جاہل ہیں۔ میں نے پی ایچ ڈی پروفیسروں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ملالہ کو گولی لگی ہی نہیں یہ سب ڈرامہ تھا۔ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ اس ڈرامے میں شامل ڈاکٹروں سمیت سب لوگوں کو پلاٹ بھی ملے تھے۔ حد ہے بغیر سوال کیے کسی چیز پر یقین کرنے کی، لیکن شاید ہماری تربیت ہی یقین کرنے کی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ سوال کے بغیر ہی ممکن ہے۔لیکن ایسا کیوں ہے کہ اک پندرہ برس کی بچی کو ایک دہشتگرد نے شناخت کر کے گولیاں ماریں تو بھی اس بچی کے ساتھ کیوں نہیں تھے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم اتنے بے حس کیسے ہو سکتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ ہم ہر روز بارہ پندرہ برس کی بچیوں کو قتل کرتے رہتے ہیں۔ ہم پندرہ سالہ بچی کو بچی نہیں سمجھتے۔ اور اگر اس کی سوچ ہو، وہ بول سکتی ہو اور اپنے تعلیم جیسے حق کی بات کرے تو ہم اسے سمجھتے ہی واجب القتل ہیں۔ اور ایسی جتنی بچیوں کو ہم قتل کرتے ہیں ان میں سارا جرگہ اور تمام گاؤں قاتل کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور اس بچی کے قاتل کو جو کہ اکثر بھائی، باپ، چچا ماموں یا کوئی کزن ہوتا ہے اس کو قانون کے کٹہرے میں لانا تو دور کی بات ہم اسے ہیرو سمجھتے ہیں۔ اس لیے ملالہ بیٹی آپ کے بچ جانے پر ہمارا پریشان ہونا بنتا تھا۔آپ تو بولتی ہو اور حقوق کی بات کرتی ہو۔ آپ سے تو خوف زدہ ہونا تو بنتا ہے۔ کیونکہ ہم تو ان بچیوں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں جو نہیں بولتیں۔ ان کو قتل نہیں کرتے لیکن پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ان کی شادیاں کر دیتے ہیں اور انہیں جیتے جی جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں ماں بھی ہوتی ہے اور بچی بھی۔ جب ہم کروڑوں بچیوں کو تعلیم نہیں دیتے تو ہمیں بہت آسانی رہتی ہے۔ آپ کا بچیوں کی تعلیم کا مشن ہمیں بہت پریشان کرتا ہے۔کیونکہ ہمیں انسانوں کے روپ میں بکریاں پالنا ہی اچھا لگتا ہے۔ اس طرح سے وہ نہیں کہہ سکتیں کہ ان کا جائیداد میں حق ہے یا ان کا ان کی اپنی بچہ دانی پر حق ہے۔ ہم نے یقینی بنانا ہے کہ وہ بکری رہے تاکہ یہ سہولت چلتی رہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جسمانی بلوغت سے مینو پاز تک ہر وقت یا تو وہ حمل سے ہو یا وہ بچے کو چھاتی کا دودھ پلا رہی ہو۔ تیسری کوئی حالت ہمیں منظور ہی نہیں۔ہمارے پاس تو فتوے موجود ہیں کہ ہم دو سال کی بچی کا نکاح بھی کر سکتے ہیں اور ”رضا مندی“ اس وقت لے لیں گے جب وہ دس برس کی ہو گی۔اور شادی کیا ہوتی ہے۔ شادی سے ہماری مراد ہے کہ چھوٹی سی بچی یا چلو کچھ بڑی لڑکی کو ایک ایسے مرد کے حوالے کرنا جسے اس نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہو۔ وہ اسے جانتی نہ ہو۔ سہاگ رات صرف اجنبی کے ساتھ ہی قبول ہے۔ اس لڑکی کو سارے سسرال کی خدمت کے لیے لایا جاتا ہے۔ اسے اپنے شوہر سے سوال یا بحث کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ جہاں اس کی ڈولی گئی ہے وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکلے۔ طلاق تو گالی ہے لڑکی اور اس کی ساری فیملی کے لیے۔وہاں کسی چیز پر اس کی مرضی نہیں ہو سکتی۔ اپنے جسم پر اپنی مرضی کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس نعرے سے تو ہم بہت ہی خوف زدہ ہیں۔ یہ نعرہ تو کہیں بھی گونجے تو ہم ان عورتوں کا بھی جینا حرام کر دیتے ہیں۔ تو ہمارے ہاں تو یہی شادی ہے۔ اگر کوئی شادی میں برابری کی بات کرے یا شادی کو کنٹریکٹ کا نام دے تو ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ہمارے سارے مفتی اور عالم اس بات پر ٹس سے مس نہیں ہوتے کہ پاکستان میں رشوت ہے، چوری ہے، انصاف نہیں ہے، ملاوٹ ہے، ذخیرہ اندوزی ہے، گندگی ہے، جھوٹ ہے، غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، انسانوں میں ہر طرح کا تفریق رائج ہے غرض کہ کون سی برائی ہے جو بدرجہ اتم ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر کبھی کوئی مفتی ذمہ داران کو خط نہیں لکھتا۔ لیکن اگر کوئی بچی یا عورت شادی کے رشتے پر کوئی کمنٹ کر دے اور اسے دو لوگوں کے درمیان ایک کنٹریکٹ کہہ دے تو پھر ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے اندر کا خوف ہے۔ پھر ہم سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اپنے خوف کو چھپانے کے لیے واویلا مچاتے ہیں۔جب کوئی لڑکی بولتی ہے چاہے وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی رہتی ہو تو ہم خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں علم ہے کہ اس سے اور بھی لڑکیوں کو زبان مل جاتی ہے۔ اس لیے ملالہ بیٹی جو کچھ تم کر رہی ہو وہ ہمیں خوف زدہ کرتا ہے۔ آپ کہتی ہو کہ شادی ایک کنٹریکٹ ہے مطلب اس میں دونوں پارٹیوں کے کچھ حقوق اور ذمہ داریاں ہونا چاہیے تو یہ بات ہمارے لیے شدید گھبراہٹ اور خوف کا باعث ہے۔ اور پھر شادی کو کنٹریکٹ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ کنٹریکٹ ختم بھی ہو سکتا ہے۔ تو یہ تو بالکل ہی ناقابل قبول ہے۔ دوسری بات آپ یہ کہتی ہو کہ لڑکیوں میں بہت پاور ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ آپ ٹھیک کہتی ہو۔ لیکن اس سچ کو ہم لڑکیوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔اس لیے کہا ہے کہ آپ لڑکی ہو کر اپنے آپ کو انسان سمجھیں گی اور آپ کے والد بھی آپ کا ساتھ دیں گے تو یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ ہم آپ سے دشمنی کریں گے اور مختلف الزامات لگا کر آپ کی باتوں کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ چاند پر تھوکیں نہیں پہنچ سکتیں، لیکن اس سے ہمیں کیا۔
بشکریہ: ہم سب