ملک میں پے پال کیوں کام نہیں کررہا؟ سیکریٹری خزانہ سے تحقیقات کا مطالبہ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ محصول نے سیکریٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس کریں اور اس تحقیقات کو یقینی بنائیں کہ ’پے پال‘ پاکستان میں کیوں کام نہیں کررہا ہے۔
پینل نے یہ بھی سفارش کی کہ بینائی سے محروم افراد کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ موبائل فون کی درآمد پر کسٹم ٹیکس میں چھوٹ ہونی چاہیے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ محصول اور معاشی امور سے متعلق پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔

اجلاس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا کہ لوگ ایمازون کا پورا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں کیونکہ پے پال پاکستان میں کام نہیں کرتا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے ایک شہری محمد بلال مختار کی جانب سے دائر درخواست پر غور کیا جس نے سینیٹ سیکریٹریٹ سے اس معاملے کو دیکھنے کی درخواست کی تھی۔

درخواست گزار نے کہا کہ ’ہم پاکستان میں پے پال چاہتے ہیں کیونکہ بہت سارے لوگ ہیں جو فری لانسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور ہمیں ادائیگی سے متعلق مسائل کا سامنا ہے اور پے پال فری لانسنگ ویب سائٹس سے رقوم کی منتقلی یا وصول کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے‘۔

بعدازاں سینیٹ سیکریٹریٹ نے درخواست سینیٹ کمیٹی کو ارسال کردی۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پے پال پر مرکزی بینک کی جانب سے کوئی پابندی نہیں ہے۔

فنانس ڈویژن کی ایک دستاویز کے مطابق کمیٹی کے سامنے پیش کردہ پے پال ایک نجی کمپنی ہے جس کی موجودگی مختلف ممالک میں ہے تاہم پے پال نے اس کے لیے اسٹیٹ بینک سے رابطہ نہیں کیا ہے۔

کسی خاص مارکیٹ میں داخل ہونا ایک کاروباری فیصلہ ہے اور اسٹیٹ بینک کا خیال ہے کہ پاکستان میں کسی بھی بین الاقوامی ادائیگی کے پر پابندی نہیں ہے جس سے متعلقہ زرمبادلہ کے ضوابط کی تعمیل ہوسکتی ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اراکین کا کہنا تھا کہ پے پال بہت سے چھوٹے ممالک میں کام کر رہا ہے جن کی آبادی پاکستان سے کم ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ پاکستان میں کام نہیں کررہے ہیں-

کمیٹی نے سیکریٹری خزانہ یوسف خان کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ پے پال اور ای کامرس کی بڑی کمپنی ایمازون ملک میں کیوں کام نہیں کررہی ہے اور ایک ماہ بعد رپورٹ طلب کی ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال مئی میں ایمازون نے پاکستان کو اپنے فروخت کنندہ کی فہرست میں شامل کیا ہے تاہم پے پال کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگ اس سہولت سے مناسب طور پر فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

فری لانسر اور ای کامرس سے وابستہ افراد کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ پے پال کو پاکستان لایا جائے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کی کوششوں کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا تاہم ان کی کوششیں رائیگاں گئیں۔

اگر پے پال پاکستان آگئی تو اس سے 2 لاکھ فری لانسرز اور 7 ہزار رجسٹرڈ چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو سہولت ملے گی اس کے علاوہ ہزاروں ایسے آن لائن کام کرنے والے افراد بھی ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں۔

اس کمیٹی نے ایک اور عوامی درخواست پر بھی تبادلہ خیال کیا جس میں نابینا افراد کے لیے موبائل فون پر کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل کیا گیا تھا۔

کسٹمز ونگ کے نمائندوں نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ وزارت صحت کے مشورے سے اس مسئلے کی جانچ کی جارہی ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے وزارت تجارت اور صحت کے نمائندوں کو آئندہ اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی تاکہ کمیٹی کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جاسکے۔

قبل ازیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک سینئر افسر نے کمیٹی کو گزشتہ 3 ببرس کے دوران جاری ٹیکس نوٹس کے بارے میں آگاہ کیا۔

سینیٹر کامل علی آغا، مصدق ملک، فاروق ایچ نائک اور دیگر سمیت کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ ایف بی آر نے گزشتہ 3 برس کے دوران لاکھوں نوٹس جاری کیے لیکن وہ جاری کردہ نوٹسز کی تعداد کے مطابق ٹیکس وصول نہیں کرسکے۔

Back to top button